Shaikhul Hind

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی صاحب
 مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:    ۔
میری عمر پندرہ سولہ سال کی ہو گی کہ دارالعلوم کی قدیم عمارت نودرہ کے عقب میں ایک عظیم الشان دارالحدیث تعمیر کرنے کی تجویز ہوئی ، اس کے لیے بڑی گہری بنیادیں نودرہ کی عمارت سے متصل کھودی گئیں، اتفاقِ وقت سے بڑی تیز بارش ہوئی او رکافی دیر تک رہی ، یہ زمین کچھ نشیب میں تھی ، بارش کے پانی سے ساری بنیادیں لبریز ہو گئیں، دارالعلوم کی قدیم عمارت کو خطرہ لاحق ہو گیا، فائز بریگیڈئیر انجنوں کا زمانہ نہیں تھا اور ہوتا بھی تو ایک قصبہ میں کہاں؟
حضرت شیخ الہند رحمہ الله کو اس صورت حال کی اطلاع ملی تو اپنے گھر میں جتنی بالٹیاں اور ایسے برتن تھے، جن سے پانی نکالا جاسکے، سب جمع کرکے حضرت کے مکان پر جو طالب علم او ردوسرے مریدین جمع رہتے تھے، ان کو ساتھ لے کر ان پانی سے بھری گہری بنیادوں پر پہنچے اور بدست خود بالٹی سے پانی نکال کر باہر پھینکنا شروع کیا، شیخ الہند رحمہ الله کے اس معاملہ کی خبر پورے دارالعلوم میں بجلی کی طرح پھیل گئی، پھر کیا پوچھنا، ہر مدرس اور ہر طالب علم اور ہر آنے جانے والا اپنے اپنے برتن لے کر اس جگہ پہنچ گیا اور بنیادوں کا پانی نکالنا شروع کیا، احقر بھی اپنی قوت وحیثیت کے مطابق اس میں شریک تھا، میں نے دیکھا کہ چند گھنٹوں میں یہ سارا پانی بنیادوں سے نکل کر کیچڑ رہ گیا تو اس کو بھی بالٹیوں سے صاف کیا گیا۔ اس کے بعد ایک قریبی تالاب پر تشریف لے گئے اور طلبہ سے کہا کہ اس میں غسل کریں گے ، حضرت رحمہ الله اول عمر سے سپاہیانہ زندگی رکھتے تھے، پانی میں تیراکی کی بڑی مشق تھی، حضرت کے ساتھ طلبہ بھی جو تیرنا جانتے تھے وہ درمیان میں پہنچ گئے، مجھ جیسے آدمی جو تیرنے والے نہ تھے کنارے پر کھڑے ہو کر نہانے لگے ، یہ واقعہ تو خود احقر نے دیکھا او ر سیرو شکار میں طلبہ کے ساتھ بے تکلف دوڑنا بھاگنا، تالابوں میں تیرنا یہ عام معمول زندگی تھا، جس کے بہت سے واقعات دوستوں اور بزرگوں سے سنے ہیں، دیکھنے والے یہ نہ پہچان سکتے تھے کہ ان میں کون استاد اور کون شاگرد؟
( چند عظیم شخصیات:11)

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء