امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله
شیخ
الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب رحمہ الله فرماتے ہیں:”حضرت گنگوہی
نورا لله مرقدہ کے متعلق مولانا عاشق الہی صاحب لکھتے ہیں کہ سچی تواضع او
رانکسار نفس جتنا امام ربانی میں دیکھا گیا دوسری جگہ کم نظر سے گزرے گا،
حقیقت میں آپ اپنے آپ کو سب سے کم تر سمجھتے تھے، بحیثیت تبلیغ جو خدمات
عالیہ آپ کے سپرد کی گئیں تھیں یعنی ہدایت وراہ بری، اس کو آپ انجام دیتے،
بیعت فرماتے، ذکر وشغل بتلاتے، نفس کے مفاسد وقبائح بیان فرماتے او رمعالجہ
فرماتے تھے،مگر بایں ہمہ اس کا کبھی وسوسہ بھی آپ کے قلب پر نہ گذرتا تھا
کہ میں عالم ہوں او ریہ جاہل، میں پیر ہوں اور یہمرید، میں مطلوب ہوں اور
یہ طالب، مجھے ان پر فوقیت ہے ، میرا درجہ ان کے اوپر ہے ، کبھی کسی نے نہ
سنا ہو گا کہ آپ نے اپنے خدام کو خادم یا مستوسل یا منتسب کے نام سے یاد
فرمایا ہو، ہمیشہ اپنے لوگوں سے تعبیر فرماتے اور دعا میں یاد رکھنے کی
اپنے لیے طالبین سے بھی زیادہ ظاہر فرماتے تھے ، ایک مرتبہ تین شخص بیعت کے
لیے حاضر آستانہ ہوئے، آپ نے ان کو بیعت فرمایا اور یوں ارشاد فرمایا کہ
:” تم میرے لیے دعا کرو، میں تمہارے لیے دعا کروں گا، اس لیے کہ بعض مرید
بھی پیر کو تیرا لیتے ہیں۔“۔ ( آپ بیتی:241/2، بحوالہ تذکرہ الرشید:2/174)
بریلی کے مولوی احمد رضا خان نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پرسب وشتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ صفت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، لیکن حضرت گنگوہی رحمہ الله نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی صاحب سے فرمایا:” اجی! دور کی گالیوں کا کیا ہے ؟ پڑی ( یعنی بلا سے ) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کریں۔“ (ارواح ثلاثہ:211)
الله اکبر! حق پرستوں کا شیوہ کہ مخالفین، بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی ان کی دشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔ ( اکابر دیوبند کیا تھے؟114)
بریلی کے مولوی احمد رضا خان نے اکابر دیوبند کی تکفیر اور ان پرسب وشتم کا جو طریقہ اختیار کیا تھا وہ ہر پڑھے لکھے انسان کو معلوم ہے، ان فرشتہ صفت اکابر پر گالیوں کی بوچھاڑ کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی، لیکن حضرت گنگوہی رحمہ الله نے جو اس دشنام طرازی کا سب سے بڑا نشانہ تھے، ایک روز اپنے شاگرد رشید حضرت مولانا محمدیحییٰ کاندھلوی صاحب سے فرمایا:” اجی! دور کی گالیوں کا کیا ہے ؟ پڑی ( یعنی بلا سے ) گالیاں ہوں، تم سناؤ، آخر اس کے دلائل تو دیکھیں، شاید کوئی معقول بات ہی لکھی ہو تو ہم ہی رجوع کریں۔“ (ارواح ثلاثہ:211)
الله اکبر! حق پرستوں کا شیوہ کہ مخالفین، بلکہ دشمنوں کی باتیں بھی ان کی دشنام طرازیوں سے قطع نظر، اس نیت سے سنی جائیں کہ اگر اس سے اپنی کوئی غلطی معلوم ہو تو اس سے رجوع کر لیا جائے۔ ( اکابر دیوبند کیا تھے؟114)
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء