مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب
حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں: ۔
حضرت مفتی صاحب منصب اور عہدہ کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر ( بعد کی اصطلاح میں صدر مفتی) تھے، تفسیر یا حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھا دیتے تھے، اس کے ساتھ وہ نقشبندی مجددی طریقہ کے صاحب ارشاد شیخ بھی تھے، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ الله کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین دیوبندی کی راہ نمائی اور تربیت میں راہ سلوک طے کی تھی اوران ہی کے مجاز تھے، وہ دارالعلوم کے اس وقت کے اکابر واساتذہ میں سب سے بڑے، بلکہ سب کے بڑے تھے اور سب ہی ان کا بڑا احترام کرتے ہیں، حضرت مفتی صاحب میں جو کمال بہت ہی نمایاں تھا، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے تھے، وہ ان کی انتہائی بے نفسی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ الله کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے، یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ گھروں کے جو کام نوکروں اور نوکرانیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، حضرت مفتی صاحب عند الضرورت وہ سب کام ( جیسے گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کا دھونا، مانجھنا وغیرہ) یہ سب بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں ، آس پاس کے غریب گھرانوں کے پیسے پیسے ، دو دو پیسے کا سودا بھی خرید کے بازار سے لادیتے ہیں، دوسروں کے پھٹے جوتے لے جاکر ان کی مرمت کرالیتے ہیں۔
راقم سطور شہادت دے سکتا ہے کہ بے نفسی کا ایسا کوئی دوسرا نمونہ اس عاجز نے نہیں دیکھا۔
حضرت مفتی صاحب منصب اور عہدہ کے لحاظ سے دارالعلوم دیوبند کے مفتی اکبر ( بعد کی اصطلاح میں صدر مفتی) تھے، تفسیر یا حدیث کا کوئی سبق بھی پڑھا دیتے تھے، اس کے ساتھ وہ نقشبندی مجددی طریقہ کے صاحب ارشاد شیخ بھی تھے، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمہ الله کے خلیفہ حضرت مولانا شاہ رفیع الدین دیوبندی کی راہ نمائی اور تربیت میں راہ سلوک طے کی تھی اوران ہی کے مجاز تھے، وہ دارالعلوم کے اس وقت کے اکابر واساتذہ میں سب سے بڑے، بلکہ سب کے بڑے تھے اور سب ہی ان کا بڑا احترام کرتے ہیں، حضرت مفتی صاحب میں جو کمال بہت ہی نمایاں تھا، جس کو ہم جیسے صرف ظاہری آنکھیں رکھنے والے بھی دیکھتے تھے، وہ ان کی انتہائی بے نفسی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ الله کے اس بندہ کے اندر وہ چیز ہے ہی نہیں جس کا نام نفس ہے، یہ بات عام طور پر مشہور تھی کہ گھروں کے جو کام نوکروں اور نوکرانیوں کے کرنے کے ہوتے ہیں، حضرت مفتی صاحب عند الضرورت وہ سب کام ( جیسے گھر میں جھاڑو دینا، برتنوں کا دھونا، مانجھنا وغیرہ) یہ سب بے تکلف، بلکہ بشاشت اور خوشی کے ساتھ کر لیتے ہیں ، آس پاس کے غریب گھرانوں کے پیسے پیسے ، دو دو پیسے کا سودا بھی خرید کے بازار سے لادیتے ہیں، دوسروں کے پھٹے جوتے لے جاکر ان کی مرمت کرالیتے ہیں۔
راقم سطور شہادت دے سکتا ہے کہ بے نفسی کا ایسا کوئی دوسرا نمونہ اس عاجز نے نہیں دیکھا۔
( تحدیث نعمت:ص127)
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء