رمضان المبارک تقوٰی اورقرب ِالہٰی کامہینہ ہے

مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم

اللہ تبارک وتعالیٰ ہرسال یہ ایک مہینہ بھیجتے ہیں کہ کہاں بھٹک رہے ہو، چلو لوٹ آؤ،گیارہ مہینے کی دنیاکی محنت نے تمہیں اللہ تعالیٰ کی یادسے غافل کردیا،دنیاکی فکر غالب آگئی ہے اورآخرت کی فکرمغلوب ہوگئی ہے،تمہارے شوق ،سوچ اوراُمنگ کامرکز کوئی اورچیزبن گئی ہے،لوٹ کرآؤ،اس ماہ میں ہم تمہارے رُخ کوسیدھا کریں،ہم تمہیں قریب لیکرآئیں۔فرمایا:
{ یٰٓـأَیُّہَا الَّذِینَ ٰامَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِینَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ }
رمضان کامہینہ بھیجنے کامقصدتقوٰی پیداکرناہے کہ دنیاکی فکرمیں لگ کرتقوٰی کمزورہوگیاہے ،آخرت کی فکرمغلوب ہوگئی ہے،ہم تمہیں ا س مہینے میں اپنے پاس بلارہے ہیں،یہ اس مہینے کامقصودہے۔
چنانچہ پہلے ضبط ِنفس کی تربیت دی جارہی ہے کہ گیارہ مہینے بہت کھاپی لیا،اب ہماری خاطراس طرح دن گذاروکہ نہ کھاؤاورنہ پیو،اب کھانے پینے کا تقاضا دل میں پیدا ہورہاہوگالیکن ہماری خاطرتم کھانے پینے کوچھوڑے ہوئے ہوگے تو{ اَلصَّوْمُ لِیْ وَ اَنَا اَجْزِیْ بِہٖ }یہ روزہ خالص میرے لئے ہوگا،اس میں رِیاکاری کااحتمال نہیں،اس میں دِکھاوے کااحتمال نہیں،لہٰذااس کابدلہ میں ہی دوں گا۔
دیگراعمال کی جزاء اللہ تعالیٰ نے بتلادی لیکن روزے کی جزانہیں بتلائی،بلکہ فرمایاکہ اس کی جزامیں دوں گا،اس سے روزے کی جزا کی عظمت بیان ہوئی،ظاہرہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہی دیں گے تواپنے قرب کی دولت عطافرمائیں گے،اپنے سے تعلق کی دولت عطافرمائیں،یہ اجریہیں دنیامیں ملے گا،حضرت حکیم الامت مولاناتھانوی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیںکہ جب کسی نیک کام کے کرنے میں سستی ہو،اس سستی کا مقابلہ کرکے وہ کام کرو اور جب کسی گناہ سے بچنے میں سستی ہو تو اس سستی کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچو،اسی سے تعلق مع اللہ پیداہوتاہے،اسی سے باقی رہتاہے اور اسی سے ترقی کرتا ہے۔
سجدہ مقامِ قرب ہے
حضرت عارفی قدس اللہ سرہ فرمایاکرتے تھے کہ تراویح کوکیاسمجھوگے کہ کیاہے؟ تراویح کی بیس رکعات ہیں اورچالیس سجدے ہیںاورسجدے کے بارے میں حدیث میں آتاہے کہ:
{اَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی فِی السُّجُوْدِ}
بندہ اپنے اللہ سے کسی بھی وقت اتناقریب نہیں ہوتاجتناسجدے کی حالت میں ہوتاہے،سورۂ اقراء کی آخری آیت میںاللہ تعالیٰ نے بھی بڑے پیارسے فرمایاکہ سجدہ کرلو اور میرے پاس آجاؤ،اللہ تعالیٰ کے قرب کاکوئی ذریعہ سجدہ سے بڑا نہیں، حضرت فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تراویح میں چالیس سجدہ عطافرمائے ہیں، گویاچالیس مقامات ِقرب عطافرمادئیے توایک طرف دن میں روزے سے قرب بڑھ رہاہے اور دوسری طرف رات کوتراویح سے قرب ِالہٰی میں اضافہ ہورہاہے۔
رمضان المبارک صبرکامہینہ ہے
پھرفرمایاکہ یہ {شَھْرُ الصَّبَرِ} یعنی صبرکامہینہ ہے،ایک صبرتویہی ہے کہ کھانے پینے سے رُک رہے ہیں،اوردوسراصبریہ کہ دل میں جوبری خواہشات پیدا ہورہی ہوں ان کے اُوپرصبرکرو،ان کے تقاضوں پرصبرکرو،زبان کوروکو،اگرکوئی لڑنے پر آمادہ ہوتو کہہ دوکہ میں روزے سے ہوں ،اس وقت اگرچہ طبیعت کی خواہش مقابلے کی ہوتی ہے کہ جتنی گالیاں یہ دے رہاہے میں اس سے دس زیادہ دیدوں،اس نے ایک ماراتومیں دس ماردوں،لیکن اس وقت اپنے آپ کوروکنے کااورصبرکرنے کاحکم ہے۔
اسی طرح عام حالات میں بھی غیبت کرنا،جھوٹ بولناحرام ہے،لیکن رمضان کے مہینے میں گناہ کی شناعت اوربرائی اورزیادہ بڑھ جاتی ہے،ایک مرتبہ نبیِ کریم ﷺ تشریف لے جارہے تھے،دوآدمی کودیکھاکہ ایک دوسرے کی حجامت (پچھنے لگانا) کررہا تھا اورآپس کی باتوں میں غیبت کررہے تھے،نبیِ کریم ﷺنے فرمایاکہ {اَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَ الْمَحْجُوْمُ }کہ پچھنے لگانے والااورجس کولگائے جارہے ہیں دونوں کا روزہ تو ٹوٹ گیا،بعض فقہائؒاس طرف گئے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جاتاہے،لیکن اکثرفقہائؒ فرماتے ہیں کہ حجامت سے روزہ ٹوٹنامرادنہیں،مطلب یہ ہے کہ روزے کامقصدتھاکہ انسان اپنے اُوپرضبط کرتااورکوئی غلط بات زبان سے نہ نکالتا،وہ انہوں نے غیبت کرکے فوت کردیا۔

Bidaat e Maah e Rajab

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ، جلد: 95 ‏، شعبان  1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                              

بدعاتِ ماہِ رجب

از: مفتی محمد راشد ڈسکوی،  استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی 
 
رتبے کے اعتبار سے عبادات کی دو قسمیں
                 انسان جتنی بھی عبادات سرانجام دیتا ہے ان کی اللہ رب العزت کے ہاں مرتبے کے اعتبار سے دو قسمیں ہیں،ایک :جو مکان کے بدلنے کے ساتھ مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں، دوسری:جو زمانے کے بدلنے سے مرتبے کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہیں:
پہلی قسم کی مثال
                حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ”کسی شخص کا اپنے گھر میں اکیلے نماز ادا کرنا ایک نماز کے برابر اجر رکھتا ہے اور محلے کی مسجد میں نماز ادا کرنا پچیس نمازوں کے برابراجر رکھتا ہے اورجامع مسجد میں نماز ادا کرنا پانچ سو نمازوں کے برابراجر رکھتاہے اورمسجدِ اقصیٰ میں نماز ادا کرناپچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد حرام میں نماز ادا کرنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے اور مسجد نبوی ﷺ میں نماز ادا کرنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر اجر رکھتا ہے “۔(المعجم الکبیر للطبرانی،رقم الحدیث:۷۰۰۸، دارالحرمین، بیروت)
                اسی طرح حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:جو شخص اپنے گھر میں وضو کر کے مسجدِ قباء میں آئے اور وہاں نماز ادا کرے تو اس کے لیے ایک عمرہ ادا کرنے کے برابر اجر لکھا جاتا ہے،(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء فی الصلاة فی مسجد قباء،رقم الحدیث: ۱۴۱۲،داراحیاء الکتب العربیہ)۔
                ان دونوں مثالوں میں دیکھیں کہ مکان بدلا،جگہ بدلی تو عبادت کی قیمت بھی بدلتی گئی،ایک ہی نماز ہے؛ لیکن اس کا اجر ،جگہ کے بدلنے سے کہیں سے کہیں پہنچ گیا۔
دوسری قسم کی مثال
                ایک شخص کسی بھی عام دن میں روزہ رکھے تو اسے ایک روزے کا اجر ملے گا؛لیکن رمضان کا ایک روزہ اتنا اجر رکھتا ہے کہ ساری زندگی روزے رکھنے کا اتنا اجر نہیں بن سکتا،اسی طرح کچھ دوسرے ایام ہیں جن میں روزے کا اجر بدلتا جاتا ہے،مثلاً:حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ۹ ویں ذی الحجہ کے دن روزہ رکھنے کے اجر کے بارے میں سوال کیا گیا ، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:”اس ایک دن کا روزہ رکھنا، اس شخص کے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:۱۱۶۲، بیت الأفکار)۔
                دوسری روایت میں ہے کہ:”اس دن کاروزہ موجودہ گذرنے والے سال اور آنے والے سال کے (صغیرہ )گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“،(المعجم الکبیر:۵۰۸۹،مکتبة العلوم والحکم)۔ ”اسی طرح ۹ویں اور ۱۰ویں محرم کا روزہ بھی ایک سال گذشتہ کے (صغیرہ)گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے“۔(صحیح مسلم،رقم:۱۱۶۲،بیت الافکار)۔
                اس کے علاوہ کسی بھی نفل عمل کے بارے میں دیکھیں کہ عام دنوں میں اس کا ایک ہی اجر ہے؛ لیکن یہی نفل عمل رمضان المبارک میں فرائض کے برابر حصول ِ اجر کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ دن میں ادا کی گئی نفل نماز اور رات کے وقت ادا کی گئی نفل نماز (نمازِ تہجد)کے اجر میں زمین آسمان کا فرق ہے،نمازِ تہجد کو حدیثِ پاک میں ”أفضلُ الصلاة بعد الفریضة“کہا گیا ہے،(صحیح مسلم ،رقم الحدیث:۱۱۶۳،بیت الأفکار)،اور پھر صرف اسی پر بس نہیں؛بلکہ عام راتوں میں اد ا کی گئی نفل نمازیں ایک طرف اور لیلة القدر میں ادا کی گئی نفل نماز دوسری طرف،دونوں کے اجروثواب میں مشرق و مغرب کا فرق ہے ،اس کے بارے میں توفرمایا گیا کہ﴿لیلةُ القَدْرِ خیرٌ مِنْ ألفِ شَھْر﴾۔
                مندرجہ بالا مثالوں سے بخوبی واضح ہوگیاکہ زمانے کے بدلنے سے اللہ کے ہاں عبادات کا بھی رتبہ بدل جاتا ہے ؛ لیکن اس جگہ ایک بات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے کہ مختلف زمانوں میں، جن جن میں عبادات سے متعلق اجر و ثواب کی زیادتی بتلائی گئی ہے، وہ سب کی سب ”منزّل من اللہ“ ہیں ، ان کے اجر و ثواب کی زیادتی کی خبر بذریعہٴ وحی بزبانِ نبوت معلوم ہوئی ہے،انسان خود اپنی چاہت سے اپنی سوچ سے کسی خاص دن میں کسی خاص عبادت کا الگ سے کوئی اجر مقرر نہیں کر سکتا۔
رجب کا مہینہ
                سال کے خاص مہینوں میں ایک خاص مہینہ ”رجب المرجب “ بھی ہے،اس مہینے کی سب سے پہلی خصوصیت اس مہینے کا ”اشہر حرم “میں سے ہونا ہے،(صحیح البخاری،کتاب بدء الخلق،باب ماجآء فی سبع أرضین،رقم الحدیث:۳۱۹۷،دار طوق النجاة)۔
                شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:” ملتِ ابراہیمی میں یہ چار مہینے ادب واحترام کے تھے ،اللہ تعالی ٰ نے ان کی حرمت کو برقرار رکھا اور مشرکینِ عرب نے جو اس میں تحریف کی تھی اس کی نفی فرما دی“۔(معارف القرآن للکاندھلوی:۳/۴۳۱،بحوالہ حاشیہ سنن ابن ماجہ، ص:۱۲۵)
رجب کی پہلی رات
                حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب نبیِ اکرم ﷺ رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کرتے تھے:”اللّٰہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبَ وَشَعْبَانَ و بلِّغْنا رمَضَان“(مشکاة المصابیح، کتاب الجمعہ ،الفصل الثالث،رقم الحدیث:۱۳۶۹،دارالکتب العلیہ) ترجمہ:اے اللہ ! ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما،اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے۔
                ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ: ”ان مہینوں میں ہماری طاعت و عبادت میں برکت عطا فرما،اور ہماری عمر لمبی کر کے رمضان تک پہنچا؛ تا کہ رمضان کے اعمال روزہ اور تراویح وغیرہ کی سعادت حاصل کریں“۔(مرقاة المفاتیح:۳/۴۱۸،دارالکتب العلمیہ)
                ماہِ رجب کے چاند کو دیکھ کر نبی کریم ﷺ دعا فرماتے تھے ،اسی کے ساتھ بعض روایات سے اس رات میں قبولیتِ دعا کا بھی پتہ چلتا ہے ، جیسا کہ ”مصنف عبدالرزاق“میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے فرمایا :”پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی وہ شبِ جمعہ،رجَب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات،عید الفطر کی رات اور عید الاضحیٰ کی رات“ ہے۔(مصنف عبد الرزاق،رقم الحدیث: ۷۹۲۷،۴/۳۱۷،المجلس العلمی)
ماہِ رجب میں روزے
                رجب میں روزہ رکھنے سے متعلق الگ سے کوئی خاص فضیلت منقول نہیں ہیں ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک کتاب ”تبیینُ العَجَبْ بما وَرَدَ في فَضْلِ رَجَب“ لکھی،جس میں انھوں نے بہت سی احادیث کو جمع کر کے ان کی اسنادی حیثیت کو واضح کیا ہے جو فضائل ِ رجب سے متعلق نہایت ضعیف یا موضوع تھیں آپ نے فرمایا کہ:ماہِ رجب میں خاص رجب کی وجہ سے کسی روزے کی مخصوص فضیلت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے،(تبیین العجب بما ورد فی فضل رجب، مقدمہ، ص:۱۱)
                البتہ روزہ خود ایک نیک عمل ہے اور پھر رجب کا ”اشہرِحرم“ میں سے ہونا ،تو یہ دونوں مل کر عام دنوں سے زائد حصول ِ اجر کا باعث بن جاتے ہیں؛ لہٰذا اس مہینے میں کسی بھی دن کسی خاص متعین اجر کے اعتقاد کے بغیر روزہ رکھنا، یقینا مستحب اور حصول ِخیر کا ذریعہ ہو گا،مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ اللہ نے (امداد الفتاویٰ:۲/۸۵ میں)ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ:”․․․․․دوسری حیثیت رجب میں صرف” شہر ِ حرام“ ہونے کی ہے، جو اس(رجب)میں اور بقیہ اشہرحُرم میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطعِ نظر صرف اس دوسر ی حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا“۔
                چنانچہ کسی دن کو خاص کر کے روزہ رکھنے اور اس کے بارے میں عجیب و غریب فضائل بیان کرنے کی مثال ۲۷/رجب کا روزہ ہے ، جو عوام الناس میں ”ہزاری روزہ “ کے نام سے مشہور ہے۔(اس پر تفصیلی کلام آگے آرہا ہے)
ماہِ رجب کی بدعات
                اسلام سے قبل ہی سے ماہِ رجب میں بہت سی رسومات اور منکرات رائج تھیں، جن کو اسلام نے یکسر ختم کرکے رکھ دیا،ان میں رجب کے مہینے میں قربانی کا اہتمام ،جس کو حدیث پاک کی اصطلاح میں ”عتیرہ “ کے نام سے واضح کیا گیا ہے، اسی مہینے میں زکاة کی ادائیگی اور پھر موجودہ زمانے میں ان کے علاوہ بی بی فاطمہ کی کہانی ،۲۲/ رجب کے کونڈوں کی رسم،۲۷/ رجب کی شب”جشنِ شب ِ معراج“اور اگلے دن کا روزہ جس کو”ہزاری روزہ “کہا جاتا ہے،وغیرہ وغیرہ سب ایسی رسومات و بدعات ہین جن کا اسلام میں کوئی ثبوت نہیں ہے ،ذیل میں ۲۷/ رجب سے متعلق ہونے والی منکرات اور ہزاری روزے سے متعلق کچھ عرض کیا جائے گا۔
ستائیسویں رجب / شبِ معراج
                رجب کی ستائیسویں شب میں موجودہ زمانے میں طرح طرح کی خرافات پائی جاتی ہیں، اس رات حلوہ پکانا،رنگین جھنڈیاں ، آتش بازی اور مٹی کے چراغوں کو جلا کے گھروں کے درو دیوار پر رکھنا وغیرہ وغیرہ،جن کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر اِن کو عبادت اور ثواب سمجھ کے کیا جاتا ہے تو یہ بدعت کہلائیں گی؛کیونکہ نہ تو اِن سب اُمور کو ہمارے نبی کریم ﷺ نے بنفسِ نفیس کیا ،نہ ان کے کرنے کا حکم کیا اور نہ ہی آپ ﷺ کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کیا ، اور نہ ہی کرنے کا حکم کیا۔اور اگر ان اُمور کو عبادت سمجھ کے نہیں کیا جاتا؛ بلکہ بطورِ رسم کیا جاتا ہے تو ان میں فضول خرچی،اسراف اور آتش بازی کی صورت میں جانی نقصان کا خدشہ، سب اُمور شرعاً حرام ہیں۔
                اِن تمام اُمور کو اِس بنیاد پر سرانجام دیا جاتا ہے کہ ۲۷ ویں رجب میں نبیِ کریم ﷺ کو سفرِ معراج کروایا گیا،عوام کے اس رات اِس اہتمام سے پتہ چلتا ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو ہی حتمی اور قطعی طور پر شبِ معراج سمجھا جاتا ہے ؛حالانکہ آپ ﷺ کو سفرِ معراج کب کروایا گیا؟ اِس بارے میں تاریخ،مہینے؛بلکہ سال میں بھی بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے؛جسکی بناء پر ستائیسویں شب کو ہی شبِ معراج قرار دینا یکسر غلط ہے،اگرچہ مشہور قول یہی ہے۔
                دوسری بات ! شبِ معراج جِس رات یا مہینے میں بھی ہو ،اُس رات میں کسی قسم کی بھی متعین عبادت شریعت میں منقول نہیں ہے،یہ الگ بات ہے کہ اِس رات میں سرکارِ دو عالم حضرت محمد ﷺ کو بہت بڑا شرف بخشا گیا،آپ کے ساتھ بڑے اعزاز و اکرام والا معاملہ کیا گیااور آپ ﷺ کو آسمانوں پر بُلا کے بہت سے ہدیے دئے گئے؛ لیکن امت کے لیے اس بارے میں کسی قسم کی کوئی فضیلت والی بات کسی نے نقل نہیں کی۔
شبِ معراج افضل ہے یا شبِ قدر؟
                شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اِن دونوں راتوں (شبِ قدر اور شبِ معراج) میں سے کون سی رات افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرم ﷺ کے حق میں لیلة المعراج افضل ہے اور امت کے حق میں لیلة القدر ، اس لیے کہ اِس رات میں جن انعامات سے نبی اکرم ﷺ کو مختص کیا گیا وہ ان (انعامات ) سے کہیں بڑھ کے ہیں جو (انعامات آپ ﷺ کو) شبِ قدر میں نصیب ہوئے،اور امت کو جو حصہ (انعامات)شبِ قدر میں نصیب ہوا ،وہ اس سے کامل ہے جو(امت کو شبِ معراج میں ) حاصل ہوا ، اگرچہ امتیوں کے لیے شبِ معراج میں بھی بہت بڑا اعزاز ہے؛ لیکن اصل فضل ،شرف اور اعلیٰ مرتبہ اُس ہستی کے لیے ہے جِس کو معراج کروائی گئی،ﷺ۔(مجموع الفتاویٰ،کتاب الفقہ ،کتاب الصیام،رقم الحدیث: ۷۲۳،۲۵ / ۱۳۰،دار الوفاء)
                علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے بھی اسی قسم کا ایک لمبا سوال و جواب ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نقل کیا ہے ،اور اس کے بعدلکھا ہے کہ ”اِس جیسے اُمور میں کلام کرنے کے لیے قطعی حقائق کی ضرورت ہوتی ہے اور اِن کا علم ”وحی کے بغیر ممکن نہیں“ اور اِ س معاملے میں کسی تعیین کے بارے میں وحی خاموش ہے؛ لہٰذا بغیر علم کے اِس بارے میں کلام کرنا جائز نہیں ہے“۔(زاد المعاد، التفاضل بین لیلة القدر و لیلة الإسراء:۱/۵۷،۵۸،موٴسسة الرسالة)․
                چنانچہ ! جب اتنی بات متعین ہو گئی کہ امت کے حق میں شبِ معراج کی کوئی فضیلت منصوص نہیں، علاوہ اس بات کے کہ اس رات کا ۲۷/ رجب کو ہی ہونا بھی قطعی نہیں ہے تو اِس رات کو یا اِس کے دن کو کسی عبادت کے لیے جداگانہ طور پر متعین کرنا کسی طرح درست نہیں ہے،اب ذیل میں شبِ معراج کے وقتِ وقوع کے بارے میں جمہور علماء کی تحقیق پیش کی جائے گی:
واقعہ معراج کب پیش آیا؟
                علماءِ سیر کا اس میں اختلاف ہے کہ آپ ﷺ کو معراج کب کروائی گئی ،اس بارے میں (یعنی جِس سال میں معراج کروائی گئی ) عموماً دس اقوال ملتے ہیں: اکثرعلماء کے نزدیک اتنی بات تو متعین ہے کہ واقعہ معراج ”بعثت“ کے بعد پیش آیا ؛البتہ بعثت کے بعد کے زمانے میں اختلاف ہے، چنانچہ (۱)ابن سعد کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے ایک سال قبل کروائی گئی۔ (۲) ابن جوزی کا قول ہے کہ معراج ہجرت سے آٹھ ماہ قبل ہوئی۔ (۳) ابو الربیع بن سالم کا کہنا ہے کہ ہجرت سے چھ ماہ قبل ہوئی۔(۴) ابراہیم الحربی کا کہنا ہے کہ ہجرت سے گیارہ ماہ قبل ہوئی۔ (۵) ابن عبد البرّ کی رائے ہجرت سے ایک سال اور دو ماہ قبل کی ہے۔ (۶) ابن فارس کی رائے ہجرت سے ایک سال اور تین ماہ قبل کی ہے ۔ (۷) سدّی نے ہجرت سے ایک سال اور پانچ ماہ قبل کا قول نقل کیا ہے۔ (۸) ابن الأثیر نے ہجرت سے تین سال قبل کا قول اختیار کیا ہے۔ (۹) زہری سے نقل کیا گیا ہے کہ واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ (۱۰) ایک قول بعثت سے پہلے وقوعِ معراج کا بھی ہے؛ لیکن یہ قول شاذ ہے، اس کو تسلیم نہیں کیا گیا۔
                اِن اقوال میں سے سب سے زیادہ مشہور قول جس کو ترجیح دی گئی ہے وہ ہجرت سے ایک سال قبل کا ہے۔(فتح الباری:۷/۲۵۴،دارالسلام،سبلُ الہدیٰ والرشاد:۳/۶۵ ،دارالکتب العلمیہ)
معراج کس مہینے میں ہوئی؟
                جس طرح وقوع ِ معراج کے سال میں اختلاف ہے اسی طرح مہینے کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ واقعہِ معراج کس مہینے میں پیش آیا،اس بارے میں بعض جگہ پانچ مہینوں کا ذکر مختلف اقوال میں ملتا ہے اور بعض جگہ چھ مہینوں کا۔ (۱) بہت سارے علماء کے نزدیک ربیع الاول کے مہینے میں واقعہ معراج پیش آیا۔ (۲) ابراہیم بن اسحاق الحربی نے ربیع الاخر کے مہینے میں معراج کا ہونا لکھا ہے۔ (۳) عبدالغنی بن سرور المقدسی نے رجب کے مہینے کو ترجیح دی ہے،یہی قول مشہور بھی ہے۔(۴) سدّی نے شوّال میں معراج کا ہونا لکھا ہے(۵) ابن فارس نے ذی الحجہ میں معراج کا ہونا لکھا ہے،(شرح المواہب للزرقانی:۲/۷۰،دارالکتب العلمیہ، عمدة القاری:۱۷/۲۷،دارالکتب العلمیہ)
معراج کس رات میں ہوئی؟
                علامہ زرقانی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں تین اقوال مشہورہیں :پہلا قول جمعے کی رات کا ہے،دوسرا قول ہفتہ کی رات اور تیسرا قول پیر کی رات کا ہے؛چونکہ معراج کی تاریخ میں سخت اختلاف ہے؛ اس لیے رات کی تعیین میں حتمی قول اختیار کرنا آسان نہیں ہے۔( سُبُل الہدیٰ والرشاد: ۳/۶۵ ،دارالکتب العلمیہ)۔
تعیین شبِ معراج میں اتنا اختلاف کیوں ؟
                علماء ِسیر نے خوب تحقیق کے بعد اُن صحابہ کی تعداد اور نام لکھے ہیں ،جنہوں نے قصہٴ معراج کو نقل کیا ،کسی نے مختصر اور کسی نے تفصیل سے؛چنانچہ علامہ قسطلانی نے (المواہب اللدنیہ :۲/ ۳۴۵، میں)چھبیس صحابہ کے نام شمار کیے ہیں، اور علامہ زرقانی نے اس کتاب کی شرح میں ان صحابہ کے ناموں میں اضافہ کرتے ہوئے پینتالیس کی تعداد اور ان کے نام ذکر کئے ہیں،(شرح العلامة الزرقانی : ۸/۷۶،دارالکتب العلمیہ)۔اس تفصیل کے بعد قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس قصے کی تفصیل بیان کرنے والے اصحاب ِ رسول کی اتنی بڑی تعداد ہے اور اس کے باوجود جس رات میں یہ واقعہ پیش آیا اس رات کی حتمی تاریخ کسی نے بھی نقل نہیں کی ،آخر کیوں؟کتبِ سیر میں غور کرنے کے بعد سوائے اس کے کوئی اور بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اگرچہ اِس رات میں اتنا بڑا واقعہ پیش آیا؛ لیکن اس کی بنا پر اس رات کو کسی مخصوص عبادت کے لیے متعین کرنا نہ تو کسی کو سُوجھا اور نہ ہی زبانِ نبوت سے اس بارے میں کوئی حکم صادر ہوا ،اور نہ ہی اس رات کی اس طرح سے تعظیم کسی صحابیِ رسول کے ذہن میں پیدا ہوئی،لیکن اس کے باوجود یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ اگرچہ اس سے کوئی حکم ِ شرعی وابستہ نہیں تھا تاہم بمقتضائے محبت ہی اس طرف توجہ کی جاتی ، جب حضورِ اکرم کے خدوخال اور نقش و نگار کو بھی بمقتضائے محبت ضبط کرنے کا اہتمام کیا گیا تو آخر اس شب سے اس قدر بے اعتنائی کی کیا وجہ؟تو اس سوال کے جواب میں حضرت مولانا مفتی رشید احمدصاحب لدھیانوی فرماتے ہیں:”کہ اس شب میں خرافات و بدعات کی بھر مار کا شدید خطرہ تھا، حضور ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سدّ باب کی غرض سے اس کو مبہم رکھنا ہی ضروری سمجھا “(سات مسائل،ص:۱۶،دارالافتاء والارشاد ،کراچی)۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا عشقِ رسول ﷺ
                کیا کسی بھی درجے میں یہ بات سوچی جا سکتی ہے کہ العیاذ باللہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو نبی اکرم ﷺ سے عشق و محبت نہ تھی، یا اُن کو اس رات میں نبی اکرم ﷺ کو ملنے والے اتنے بڑے اعزاز کی خوشی نہیں ہوئی،ہر گز نہیں ! اُن سے بڑا عاشقِ رسول کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ،لیکن اُن کا عشق حقیقی تھا، جس کی بنا پر اُن سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو ہی نہیں سکتا تھا ،جو سرکارِ دو عالم ﷺ کی منشأ کے خلاف ہوتا،وہ تو خیر کے کاموں کی طرف بہت تیزی سے لپکنے والے تھے،لہذا اگر اس رات میں کوئی مخصوص عبادت ہوتی تو وہ ضرور اسے سرانجام دیتے اور اسے امت تک بھی پہنچاتے،لیکن ایسا کوئی بھی اقدام صحابہ رضوان اللہ اجمعین کی تاریخ میں نہیں ملتا،تو جب کوئی خیر کا کام ان کو نہیں سُوجھا تو وہ ”خیر “ہو ہی نہیں سکتا بلکہ وہ بدعت ہو گا، جیسا کہ علامہ شاطبی نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے :”کلُّ عبادةٍ لم یَتَعبَّدْھا أصحابُ رسولِ اللّٰہ ﷺ فلا تَعْبُدُوھا“(الاعتصام للشاطبي،باب فی فرق البدع و المصالح المرسلة: ۱/۴۱۱، دارالمعرفة) ترجمہ:”ہر وہ عبادت جسے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا ،سو تم بھی اسے مت کرو“۔
بدعت کی پہچان کے لیے معیار
                تفسیر ابن کثیر میں لکھا ہو ہے کہ : ”وأمّا أھلُ السنةِ والجماعةِ فیقولون فيکلِ فعلٍ و قولٍ لم یثبُت عن الصحابة، ہو بدعةٌ لأنہ لو کان خیراً سبقونا إلیہ، إنہم لم یترکوا خصلةً من خصالِ خیرٍ إلاّ و قد بادَرُوا إلیہا“ (تفسیر ابن کثیر، الأحقاف:۱۱، دارالسلام)
                ترجمہ:”اہل سنت والجماعة یہ فرماتے ہیں کہ جو فعل حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم سے ثابت نہ ہو تو اس کا کرنا بدعت ہے کیونکہ اگر وہ اچھا کام ہوتا تو ضرور حضرات ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم ہم سے پہلے اُس کام کو کرتے، اِس لیے کہ انہوں نے کسی نیک اور عمدہ خصلت کو تشنہ عمل نہیں چھوڑا بلکہ وہ ہر(نیک ) کام میں سبقت لے گئے“۔
اصلاحی خطبات سے ایک اقتباس
                حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ :”۲۷/رجب کی شب کے بارے میں یہ مشہور ہو گیا ہے کہ یہ شب ِ معراج ہے ، اور اس شب کو بھی اسی طرح گذارنا چاہیے جس طرح شب قدر گذاری جاتی ہے اور جو فضیلت شبِ قدر کی ہے ، کم وبیش شب معراج کی بھی وہی فضیلت سمجھی جاتی ہے؛ بلکہ میں نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہوا دیکھا کہ ”شبِ معراج کی فضیلت شبِ قدر سے بھی زیادہ ہے“ اور پھر اس رات میں لوگوں نے نمازوں کے بھی خاص خاص طریقے مشہور کر دئیے کہ اس رات میں اتنی رکعات پڑھی جائیں اور ہر رکعت میں فلاں فلاں سورتیں پڑھی جائیں ، خدا جانے کیا کیا تفصیلات اس نماز کے بارے میں مشہور ہو گئیں ، خوب سمجھ لیجئے:یہ سب بے اصل باتیں ہیں ،شریعت میں ان کی کوئی اصل اور کوئی بنیاد نہیں۔
                سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ۲۷/ رجب کے بارے میں یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتاکہ یہ وہی رات ہے، جس میں نبی کریم ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے ؛ کیونکہ اس باب میں مختلف روایتیں ہیں ، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ ربیع الاول کے مہینے میں تشریف لے گئے تھے ، بعض روایتوں میں رجب کا ذکر ہے اور بعض روایتوں میں کوئی اور مہینہ بیان کیا گیا ہے، اس لیے پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتاکہ کون سی رات صحیح معنوں میں معراج کی رات تھی، جس میں آنحضرت ﷺ معراج پر تشریف لے گئے تھے اس سے آپ خوداندازہ کر لیں کہ اگر شب معراج بھی شبِ قدر کی طرح کوئی مخصوص عبادت کی رات ہوتی،اور اس کے بارے میں کوئی خاص احکام ہوتے جس طرح شبِ قدر کے بارے میں ہیں، تو اس کی تاریخ اور مہینہ محفوظ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا؛لیکن چونکہ شب معراج کی تاریخ محفوظ نہیں تو اب یقینی طور سے ۲۷/رجب کو شبِ معراج قرار دینا درست نہیں اور اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ آپ ﷺ ۲۷/رجب کو ہی معراج کے لیے تشریف لے گئے تھے ، جس میں یہ عظیم الشان واقعہ پیش آیااور جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو یہ مقام ِ قرب عطا فرمایا اور اپنی بارگاہ میں حاضری کا شرف بخشا، اور امت کے لیے نمازوں کا تحفہ بھیجا، تو بے شک وہی ایک رات بڑی فضیلت والی تھی ، کسی مسلمان کو اس کی فضیلت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ فضیلت ہر سال آنے والی ۲۷/رجب کی شب کو حاصل نہیں ۔
                پھردوسری بات یہ ہے کہ (بعض روایات کے مطابق)یہ واقعہ معراج سن ۵/ نبوی میں پیش آیا ، یعنی حضور ﷺ کے نبی بننے کے پانچویں سال یہ شبِ معراج پیش آئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس واقعہ کے بعد ۱۸/ سال تک آپ ﷺ نے شبِ معراج کے بارے میں کوئی خاص حکم دیا ہو ، یا اس کو منانے کا حکم دیاہو ، یااس کو منانے کا اہتمام فرمایا ہو ، یا اس کے بارے میں یہ فرمایا ہو کہ اس رات میں شبِ قدر کی طرح جاگنا زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، نہ تو آپ کا ایسا کو ئی ارشاد ثابت ہے ،اور نہ آپ کے زمانے میں اس رات میں جاگنے کا اہتمام ثابت ہے ، نہ خود آپ ﷺ جاگے اور نہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تاکید فرمائی اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے طور پر اس کا اہتمام فرمایا۔
                پھر سرکارِ دو عالم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد تقریباً سو سال تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینا میں موجود رہے ، اس پوری صدی میں کوئی ایک واقعہ ثابت نہیں ہے، جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ۲۷/رجب کو خاص اہتمام کر کے منایا ہو؛ لہٰذا جو چیز حضورِ اکرم ﷺ نے نہیں کی اور جو چیز آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کی ، اس کودین کا حصہ قرار دینا ، یا اس کو سنت قراردینا، یا اس کے ساتھ سنت جیسامعاملہ کرنا بدعت ہے، اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں (العیاذ باللہ)حضور ﷺ سے زیادہ جانتا ہوں کہ کونسی رات زیادہ فضیلت والی ہے، یا کوئی شخص یہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ مجھے عبادت کا ذوق ہے، اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ عمل کیا تو میں اس کو کروں گا تو اس کے برابر کوئی احمق نہیں“(اصلاحی خطبات :۱/۴۸-۵۱،میمن اسلامک پبلشرز)
                 ”حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین رحہم اللہ تعالیٰ اور تبع تابعین رحہم اللہ تعالیٰ دین کو سب سے زیادہ جاننے والے ، دین کو خوب سمجھنے والے ، اور دین پر مکمل طور پر عمل کرنے والے تھے ، اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں ان سے زیادہ دین کو جانتا ہوں ، یا ان سے زیادہ دین کا ذوق رکھنے والا ہوں، یا ان سے زیادہ عبادت گذار ہوں تو حقیقت میں وہ شخص پاگل ہے، وہ دین کی فہم نہیں رکھتا؛ لہٰذا اس رات میں عبادت کے لیے خاص اہتمام کرنا بدعت ہے ، یوں تو ہر رات میں اللہ تعالیٰ جس عبادت کی توفیق دے دیں وہ بہتر ہی بہتر ہے؛لہٰذا آج کی رات بھی جاگ لیں، لیکن اس رات میں اور دوسری راتوں میں کوئی فرق اور نمایاں امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔“(اصلاحی خطبات:۱/۵۱،۵۲، میمن اسلامک پبلشرز)
ہزاری روزہ
                عوام میں یہ مشہور ہے کہ ۲۷/ رجب کو روزہ کی بڑی فضیلت ہے؛ حتی کہ اس بارے میں یہ مشہور ہے کہ اس ایک دن کے روزے کا اجر ایک ہزار روزے کے اجر کے برابر ہے، جس کی بنا پر اسے ”ہزاری روزے “کے نام سے جاناجاتا ہے؛حالانکہ شریعت میں اس روزے کی مذکورہ فضیلت صحیح روایات میں ثابت نہیں ہے،اس بارے میں اکثر روایات موضوع ہیں اور بعض روایات جو موضوع تو نہیں، لیکن شدید ضعیف ہیں، جس کی بنا پر اس دن کے روزے کے سنت ہونے کے اعتقاد یا اس دن کے روزے پر زیادہ ثواب ملنے کے اعتقاد پر روزہ رکھنا جائز نہیں ہے،اس بارے میں اکابرین، علماء امت نے امت کے ایمان و اعمال کی حفاظت کی خاطر راہنمائی کرتے ہوئے فتاوی صادر فرمائے ،جو ذیل میں پیش کئے جارہے ہیں :
”فتاویٰ رشیدیہ “:
                حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ماہِ رجب میں ہونے والی ”رسمِ تبارک“ اور ”رجب کے ہزاری روزے“ کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”اِن دونوں امور کاا لتزام نادرست اور بدعت ہے اور وجوہ اِن کے ناجائز ہونے کی (کتاب)اصلاح الرسوم، براہینِ قاطعہ اور اریجہ میں درج ہیں“(فتاویٰ رشیدیہ،ص:۱۴۸،ادارہ اسلامیات)۔
”فتاویٰ محمودیہ“ :
                حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”ماہِ رجب میں تواریخ ِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وارد ہوئی ہیں ؛ لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجہٴ صحت کو نہیں پہنچتیں ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ”ما ثبت بالسنة“میں ذکر کیا ہے کہ:”بعض (روایات) بہت ضعیف اور بعض موضوع(من گھڑت)ہیں“۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۲۸۱،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
                حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ:”عوام میں ۲۷/ رجب کے متعلق بہت بڑی فضیلت مشہور ہے؛ مگر وہ غلط ہے، اس فضیلت کا اعتقاد بھی غلط ہے، اِس نیت سے روزہ رکھنا بھی غلط ہے،”ما ثبت بالسنة “میں اِ س کی تفصیل موجود ہے۔“(فتاویٰ محمودیہ:۱۰/۲۰۲،جامعہ فاروقیہ،کراچی)
”فتاویٰ دارالعلوم دیوبند“ :
                حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:”ستائیسویں رجب کے روزے کو جسے عوام”ہزارہ روزہ“کہتے ہیں اور ہزار روزوں کے برابر اس کا ثواب سمجھتے ہیں ، اس کی کچھ اصل نہیں ہے۔ “(فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل:۶/۴۰۶، مکتبہ حقانیہ ، ملتان)
”فتاویٰ رحیمیہ “:
                حضرت مولانا مفتی سید عبد الرحیم صاحب لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :”ستائیسویں رجب کے بارے میں جو روایات آئی ہیں، وہ موضوع اور ضعیف ہیں ، صحیح او ر قابل ِ اعتماد نہیں؛ لہٰذا ستائیسویں رجب کا روزہ عاشوراء کی طرح مسنون سمجھ کر ہزار روزوں کا ثواب ملے گا، اس اعتقاد سے رکھنا ممنوع ہے“۔(فتاویٰ رحیمیہ :۷/۲۷۴، دارالاشاعت،کراچی)
”بہشتی زیور “:
                حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (رجب کے چاند کے بارے میں )لکھتے ہیں کہ:”اس کو عام لوگ ”مریم روزہ کا چاند“کہتے ہیں،اور اس کی ستائیس تاریخ میں روزہ رکھنے کو اچھا سمجھتے ہیں کہ ایک روزہ میں ہزار روزوں کا ثواب ملتا ہے، شرع میں اس کی کوئی قوی اصل نہیں ، اگر نفل روزہ رکھنے کو دل چاہے، اختیار ہے، خدا تعالیٰ جتنا چاہیں ثواب دیدیں، اپنی طرف سے ہزار یا لاکھ مقرر نہ سمجھے ، بعضی جگہ اس مہینے میں ”تبارک کی روٹیاں“پکتی ہیں، یہ بھی گھڑی ہوئی بات ہے، شرع میں اس کا کوئی حکم نہیں ، نہ اس پر کوئی ثواب کا وعدہ ہے، اس واسطے ایسے کام کو دین کی بات سمجھنا گناہ ہے“۔(بہشتی زیور:۶/۶۰،دارالاشاعت، کراچی)
”عمدة الفقہ“:
                حضرت مولانا سید زوّار حسین شاہ صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:”ہزاری روزہ یعنی ستائیس رجب المرجب کا روزہ ، عوام میں اس کا بہت ثواب مشہور ہے، بعض احادیثِ موضوعہ (من گھڑت احادیث)میں اس کی فضیلت آئی ہے؛ لیکن صحیح احادیث اور فقہ کی معتبر کتابوں میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے؛ بلکہ بعض روایات میں ممانعت آئی ہے، پس اس کو ضروری اور واجب کی مانند سمجھ کر روزہ رکھنا یا ہزار روزہ کے برابر ثواب سمجھ کر رکھنا بدعت و منع ہے“۔(عمدة الفقہ: ۳/۱۹۵،زوار اکیڈمی)
خلاصہ کلام
                مندرجہ بالا تفصیل سے ۲۷/ رجب کے روزے کی بے سند و بے بنیادمشہور ہوجانے والی فضیلت کی حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے،کہ اس دن کو خاص فضیلت والا دن سمجھ کر یا خاص عقیدت کے ساتھ مخصوص ثواب کے اعتقاد سے روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
                اللہ رب العزت محض اپنے فضل وکرم سے صحیح نہج پر اپنے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی اور ان کو اوروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے،آمین۔

پی کے سے کون ہے خوفزدہ؟

 

ایس اے ساگر

     وہ کسی دوسرے سیارے سے آیا تھا۔ یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ زمین پر مذہب کی ریکھائیں کس نے کھینچی ہیں۔ وہ انسان کی پیٹھ پر اس کی مہر تلاش کر رہا تھا۔ وہ دیوتاؤں سے ظاہر ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ وہ دیوتاوں کے کھو جانے کی خبر دے رہا تھا۔ وہ دیوتاؤں کو اپنے دفاع کیلئے استعمال کر رہا تھا۔ اس کی ان گستاخیوں سے دیوتا روٹھے ہوتے تو ودھو ونود چوپڑا کی بنائی اور راج کمار ہیرانی کی ہدایت میں عامر خان کی فلم پی کے اتنی کامیاب نہیں ہوتی۔ بھگتوں سے بھری ہوئی یہ دنیا بھی ناراض ہوئی ہوتی تو اس نے سوا دو سو کروڑ اس فلم کو نہیں دئے ہوتے۔ لیکن دیوتاوں اور انہیں ماننے والوں کے درمیان کھڑے مندروں، مساجد، گرجاگھروں اور مٹھوں میں بیٹھے ہوئے کچھ گرو، مہنت، بابا ناراض ہیں کہ پی کے نے ان کا مذاق بنایا ہے۔ اس کے پیچھے وہ اپنے اپنے طریقہ سے، اپنے اپنے پنتھ کی توہین کر رہے ہیں۔ نہیں، پی کے کوئی عظیم فلم نہیں ہے۔ وہ ایک کاروباری فلم ہی ہے جو تفریح مہیا کرواتی ہے۔ تفریح مہیا کرواتے کرواتے وہ کچھ تواہم پرستی پر حملہ کرتی ہے، کچھ پاکھنڈوں کی طرف بھی دھیان دلاتی ہے۔ لیکن یہ فلم بھگتوں کی قلعی کھولتی ہے، مگر خدا سے ڈر جاتی ہے۔ وہ کسی خدا، کسی دیوتا، کسی مٹھ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش تک نہیں کرتی۔ اسے اندازہ ہے کہ ہندوستان کو بھلے ہی اس کی ضرورت ہو، لیکن مذہب اور سیاست کی دکانیں چلانے والوں کو یہ منظور نہیں ہو گا۔ مگر پی کے اگر خدا سے ڈر رہی ہے تو مذہب کے ٹھیکیدار پی کے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی خدا کو نہیں، اپنے اس نفاق کو بچانا ہے جس سے ان کی دکان چلتی ہے۔ اس ہندوستان میں اب معبودوں کا امتحان کچھ زیادہ ہی سخت ہو گیاہے۔ مندروں،عبادتگاہوں میں اب معبودوں سے زیادہ ایسے مفاد پرست قابض ہیں جو مذہب سے زیادہ سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں۔ انہیں جدیدیت خوفزدہ کرتی ہے،ذہنی کشادگی ڈراتی ہے، تفریح سے ڈر لگتا ہے، ہم آہنگی بھی دہشت زدہ کرتی ہے۔ وہ سب کو گیتا پڑھانا چاہتے ہیں، لیکن خدا کے وجود پر خود اعتماد نہیں کرتے۔ وہ ایک فلم کے جواب میں فلم نہیں بنا سکتے، وہ ایک نظم کے جواب میں اچھی شاعری نہیں لکھ سکتے، وہ ایک پینٹنگ کے جواب میں اچھی پینٹنگ نہیں بنا سکتے۔ انہیں بس جلانا، توڑنا اور منہدم کرنا ہی آتا ہے۔ ایسے بھگتوں سے دیوتا بھی ڈرتے ہیں۔
 سینسر بورڈ کا صاف انکار:
یہی وجہ ہے کہ’پی کے‘ کے مبینہ قابل اعتراض مناظر پر پابندی لگانے کی ہندووادی تنظیموں کے مطالبہ کے درمیان سینسر بورڈ نے ایسی کوئی بھی کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ مرکزی فلم سرٹیفیکیشن بورڈ عرف سی بی ایف سی کی صدر لیلا سیم سن نے صاف کہہ دیا ہے کہ بورڈ ’پی کے‘ سے کوئی منظر نہیں ہٹائے گا، کیونکہ یہ فلم پہلے ہی ریلیز کی جا چکی ہے۔ لیلا کے بقول’ہر فلم کسی نہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس کر دیتی ہے ۔۔۔ ہم غیر ضروری طریقہ سے منظر نہیں ہٹا سکتے۔ تخلیقی کوشش نام کی ایک چیز ہوتی ہے، جس سے لوگ اپنے انداز میں چیزوں کو پیش کرتے ہیں۔ ہم پہلے ہی’پی کے‘ کو سرٹیفکیٹس دے چکے ہیں۔ اب ہم کچھ بھی نہیں ختم کر سکتے، کیونکہ یہ پہلے ہی عوامی ہو چکی ہے۔‘ اس سب سے بے نیاز پی کے ملک بھر میں پھل پھول رہی ہے اور نام نہاد باباؤں کی مارکیٹ پر طنز کے تیر برسا رہی ہے۔ مسئلہ محض عامر خان کا نہیں ہے بلکہ اس فلم میں انشکا شرما، سنجے دت اور سشانت سنگھ راجپوت نے بھی اداکاری کی ہے جبکہ یہ تاثرات کسی شیخ صاحب یا طالبان کہ نہیں بلکہ ہندوستان کے معروف خبررساں ادارہ این ڈی ٹی وی کے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عامر خان نے جب منگل پاڈے بن کر انگریزوں کیخلاف بغاوت کی تھی،جب اجے سنگھ راٹھور بن کرپاکستانی آتنکوادی گلفام حسن کو مارا تھا۔ جب عامر خان نے فنسک وانگڑو رینچو بن کر پڑھنے اورجینے کا طریقہ سکھایا تھا۔ جب بھون بن کر برطانوی حکومت سے لڑ کر اپنے گاؤں کا لگان معاف کروایا تھا۔ جب ٹیچر بن کر بچوں کی شخصیت کیسے نکھاری جائے سکھایا تھا۔ ’ستیہ میو جیتے؛جسکو دیکھ کر کافی بیداری آئی؛تو اس وقت عامر خان ایک محب وطن اور ذمہ دارشہری تھا۔ لیکن پر جب عامر نے pk فلم سے مذہب کے نام پرمنافقت اوراوہام پرستی کو اجاگرکیا تو ایک محب وطن اور منجھا ہوا فنکار مسلمان ہو گیا۔عامر خان کا مسلمان ہونے کے نام پر احتجاج وہی عناصر کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مذہب کا دھندہ چلتا رہے۔ چڑھاوے آتے رہیں، لوگ مذہب کے نام پر مرتے کٹتے رہیں!OMG میں بھگوان پر مقدمہ ٹھوکنے والے پریش راول کو تورکن پارلیمنٹ بنا دیا اور اب PK کی مخالفت، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ سنجے دت 24 دسمبر کو پونے کی یروڈا جیل سے 14 دنوں کی چھٹی پر باہر آئے تھے۔عامر خان نے سنجے دت کو کرسمس کے موقعے پر فلم ’پی کے‘ دکھائی تو سنجے دت نے اپنی اہلیہ مانیتا اور اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فلم دیکھی۔ پی کے کی اس سپیشل ا سکریننگ پر فلم کے پروڈیوسر ودھوونود چوپڑا اور ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی بھی وہاں موجود تھے۔ فلم دیکھنے کے بعد سنجے دت نے صحافیوں کو بتایاکہ ’مجھے فلم بہت پسند آئی۔ میرا کردار چھوٹا ہی سہی لیکن بڑا اہم ہے۔سنجے دت نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے جیل کے اندر رہ کر ہی ’پی کے‘ کا پرچار کیا۔ سنجے کے بقول ’میں نے ساتھی قیدیوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو خط لکھیں اور ان سے پی کے دیکھنے کیلئے کہیں۔ تو بھیا، اپنے حصے کا پروموشن تو میں نے کر دیا۔‘ کیا سنجے دت،ان کی شریک حیات مانیتا، پروڈیوسر ودھوونود چوپڑا اور ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی ہندو نہیں ہیں؟
اطبا سے اختلاف:
اس قسم کے بے شمار اختلافات معاشرہ میں بکھرے پڑے ہیں۔مبصرین کے نزدیک ہندو دھرم کے ماننے والوں کیلئے کسی بھی مافوق الفطرت چیز کو خدا کا درجہ دینے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی اور تواہم پرستی کے اسیر کسی بھی اچھی بری چیز کو خدا کا درجہ دے کر اس کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے ہیں۔رواں برس میں اپریل کے دوران اتر پردیش میں چھ سال کے ایک بچے کی کمر پر بالوں کی دم نما چٹیا نکل آنے پر ہندو ں نے اسے بھی’ہنومان کا بندر‘قرار دیتے ہوئے اس کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتر پردیش کے نیگما پور گاو ¿ں کے رہائشی چھ سالہ عمار سنگھ کی کمر کے نچلے حصہ میں پیدائش سے بال نکلنا شروع ہوئے جو اب 30 سینٹی میٹر لمبی ایک مینڈلی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مقامی ہندو باشندے اسے ہنومان دیوی کی شبیہ قرار دے کر اس کی پوجا کرنے آتے ہیں۔عمار سنگھ کے اہل خانہ کے بقول بچے کی کمر پر پیدائش کے وقت ایک انچ لمبے بال تھے جو وقت گذرنے کے ساتھ بڑھتے چلے گئے اور اب دم کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔’ دم دار‘بچے کے والد اجمر سنگھ کا کہنا ہے کہ عمار سنگھ ہندو مت کے پیروکاروں میں مقبول ہے اور لوگ اسے دیوتا کی’علامت‘کے طور پر دیکھتے ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹروں نے بچے کی پیدائش کے وقت ہی بتایا تھا کہ اس کے حمل کے ابتدائی ایام میں اس کی ریڑھ کی ہڈی میں نقص پیدا ہو گیا تھا، جس کے باعث اس کے کی کمر اور دھڑ کے درمیان پٹھوں کا مضبوط تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ کمر پر بال اگنے کی طبی وجہ بھی یہی ہے۔
تواہم پرستی پر چوٹ:
پی کے کی مخالفت کرنے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ اسلام میں بدشگونی کا کوئی تصور نہیںہے۔اہل علم سے رجوع کریں تو متعدد حقائق کا انکشاف ہوتا ہے جنھیں سوال و جواب کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
س… عام خیال یہ ہے کہ اگر کبھی دودھ وغیرہ گر جائے یا پھر طاق اعداد مثلاً3,5,7 وغیرہ یا پھر اسی طرح دنوں کے بارے میں جن میں منگل، بدھ، ہفتہ، وغیرہ آتے ہیں، انہیں مناسب نہیں سمجھا جاتا، عام زبان میں بدشگونی کہا جاتا ہے۔ تو قرآن و حدیث کی روشنی میں بدشگونی کی کیا حیثیت ہے؟
ج… اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے، جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے۔ اِلَّا ما شاءاللہ! یہ بدعملیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں، ان سے بچنا چاہئے۔
  انسان کی بدعملی میں ہے نحوست:
س… مذہب اسلام میں نحوست کی کیا اہمیت ہے؟ بعض لوگ پاوں پر پاوں رکھنے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ انگلیاں چٹخانے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ جمائیاں لینے کو نحوست سمجھتے ہیں، کوئی کہتا ہے فلاں کام کیلئے فلاں دن منحوس ہے۔
ج… اسلام نحوست کا قائل نہیں، اس لئے کسی کام یا دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔ نحوست اگر ہے تو انسان کی اپنی بدعملی میں ہے، پاوں پر پاوں رکھنا جائز ہے، انگلیاں چٹخانا نامناسب ہے اور اگر جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم ہے۔
لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا:
س… جن گھروں میں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں وہاں زیادہ لوگ خوش نہیں ہوتے، بلکہ رسماً ہی خوش ہوتے ہیں، لڑکوں کی پیدائش پر بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ کیونکہ لڑکی ہو یا لڑکا، یہ تو اللہ ہی کی مرض ہے، لیکن جس نے لڑکی جنی اس کو تو گویا مصیبت ہی آگئی، اور وہ ’منحوس‘ ٹھہرتی ہے، کیا ہم واپس جاہلیت کی طرف نہیں لوٹ رہے؟ جبکہ لڑکی کو دفن کردیا جاتا تھا۔
ج… لڑکوں کی پیدائش پر زیادہ خوشی تو ایک طبعی امر ہے، لیکن لڑکیوں کو یا ان کی ماں کو منحوس سمجھنا یا ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا گناہ ہے۔
عورتوں کا مختلف رنگوں کے کپڑے پہننا :
س… بعض لوگ چند رنگوں کے کپڑے اور چوڑیاں (مثلاً کالے، نیلے) رنگ کی پہننے سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فلاں رنگ کے کپڑے پہننے سے مصیبت آجاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟
ج… مختلف رنگ کی چوڑیاں اور کپڑے پہننا جائز ہے اور یہ خیال کہ فلاں رنگ سے مصیبت آئے گی محض توہم پرستی ہے، رنگوں سے کچھ نہیں ہوتا، اعمال سے انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول یا مردود ہوتا ہے۔
مہینوں کی نحوست:
س… اسلام میں نحوست منحوس وغیرہ نہیں، جبکہ ایک رقعہ ایسا تقسیم ہوا جو ماہ صفر کو منحوس قرار دے رہا ہے۔
ج… ماہِ صفر منحوس نہیں اسے توصفر المظفر اورصفر الخیر کہا جاتا ہے، یعنی کامیابی اور خیر و برکت کا مہینہ۔ ماہِ صفر کی نحوست کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، اس سلسلہ میں جو پرچے بعض لوگوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں، وہ بالکل غلط ہیں۔
محرم، صفر، رمضان و شعبان میں شادی کرنا:
س… بعض لوگوںکا کہنا ہے کہ چند مہینے ایسے ہیں جن میں شادی کرنا منع ہے، جیسے محرم، صفر، رمضان، شعبان وغیرہ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ان مہینوں میں شریعت نے شادی کو جائز قرار دیا ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو کرنے والا کیا گناہ گار ہوگا؟
ج… شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو۔
ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا:
س… کیا صفر کا مہینہ خصوصی طور پر ابتدائی تیرہ دن جس کو عرف میں تیرہ تیزی کہا جاتا ہے، یہ منحوس ہے؟
ج… صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا جاہلیت کی رسم ہے، مسلمان تو اس کو صفر المظفر اور صفر الخیر سمجھتے ہیں، یعنی خیر اور کامیابی کا مہینہ۔
شعبان میں شادی :
س… بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شعبان المعظم چونکہ شب برات کا مہینہ ہے اس لئے شعبان میں نکاح جائز نہیں اور شادی بیاہ منع ہے۔
ج… قطعاً غلط اور بیہودہ خیال ہے، اسلام نے کوئی مہینہ ایسا نہیں بتایا جس میں نکاح ناجائز ہو۔
 محرم، صفر میں شادیاں :
س… محرم، صفر، شعبان میں چونکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے علاوہ بڑے سانحات ہوئے، ان کے اندر شادی کرنا نامناسب ہے۔ اس لئے کہ شادی ایک خوشی کا سبب ہے اور ان سانحات کا غم تمام مسلمانوں کے دلوں میں ہوتا ہے اور مشاہدات سے ثابت ہے کہ ان مہینوں میں کی جانے والی شادیاں کسی نہ کسی سبب سے رنج و غم کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس میں کسی عقیدے کا کیا؟
ج… ان مہینوں میں شادی نہ کرنا اس عقیدے پر مبنی ہے کہ یہ مہینہ منحوس ہے، اسلام اس نظریہ کا قائل نہیں۔ محرم میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس مہینے میں عقدِ نکاح ممنوع ہوگیا، ورنہ ہر مہینے میں کسی نہ کسی شخصیت کا وصال ہوا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی بزرگ تر تھے، اس سے یہ لازم آئے گا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے کسی میں بھی نکاح نہ کیا جائے، پھر شہادت کے مہینے کو سوگ اور نحوست کا مہینہ سمجھنا بھی غلط ہے۔
عیدالفطر و عید الاضحی کے درمیان شادی:
س… کہا جاتا ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے درمیان شادی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ بقرعید کے بعد شادی کرنی چاہئے، اگر شادی ہوجائے تو دولہا دلہن سکھ سے نہیں رہتے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ درست ہے یا غلط؟
ج… بالکل غلط عقیدہ ہے!

منگل، بدھ کو سرمہ لگانا:
س… میں نے سنا ہے کہ ہفتہ میں صرف پانچ دن سرمہ لگانا جائز ہے، اور دو دن لگانا جائز نہیں، مثلاً: منگل اور بدھ۔ کیا یہ صحیح ہے؟
ج… ہفتہ کے سارے دنوں میں سرمہ لگانے کی اجازت ہے، جو خیال آپ نے لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

نوروز کے تہوار:
س… 12مارچ کو ’نوروز‘ منایا جاتا ہے، کیا اسلامی نقطہ نظر سے اس کی کوئی حقیقت ہے؟ بعض اخبارات میں نوروز کی بڑی دینی اہمیت بیان کی گئی ہے، قرآن کریم کے حوالے سے اس میں بتایا گیا ہے کہ ازل سے اب تک جتنے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں وہ سب اسی روز ہوئے۔ اسی روز سورج کو روشنی ملی، اسی روز ہوا چلائی گئی، اسی روز حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لنگرانداز ہوئی، اسی روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت شکنی کی، وغیرہ وغیرہ۔ ازروئے حدیث نوروز کے اعمال بھی بتائے گئے کہ اس روز روزہ رکھنا چاہئے، نہانا چاہئے، نئے کپڑے پہننے چاہئیں، خوشبو لگانی چاہئے اور بعد نماز ظہر چار رکعت نماز نوروز دو دو رکعت کی نیت سے ادا کرنی چاہئے۔ پہلی دو رکعت کی پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس بار سورہ القدر اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنی چاہئے۔ دوسری دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الکافرون اور دوسری دو رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الناس اور دس مرتبہ سورة الفلق پڑھنی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دو رکعت کی پہلی رکعت میں ایک ہی سورت دس بار اور دوسری رکعت میں دو سورتیں دس دس بار اور وہ بھی الٹی ترتیب سے یعنی سورة الناس پہلے اور سورة الفلق بعد میں، کیا یہ درست ہے؟ چونکہ یہ باتیں قرآن و حدیث کے حوالے کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، اس مسئلے کی وضاحت فرماکر مشکور و ممنون فرمائیں۔
ج… ہماری شریعت میں نوروز کی کوئی اہمیت نہیں، اخبارات میںاس حوالے سے جو لکھا ہے وہ صحیح نہیں۔ نوروز کی تعظیم مجوسیوں اور شیعوں کا شعار ہے۔
رات کو جھاڑو دینا:
س… سنا ہے کہ رات کو جھاڑو دینا گناہ ہے، کیا کاروباری لحاظ سے شریعت کے مطابق رات کو جھاڑو دینا اور جھاڑو سے فرش دھونا جائز ہے؟
ج… رات کو جھاڑو دینے کا گناہ میں نے کہیں نہیں پڑھا!
چپل کے اوپر چپل رکھنا :
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ عصر کی اذان کے تھوڑی دیر بعد جھاڑو نہیں دینی چاہئے، یعنی اس کے بعد کسی بھی وقت جھاڑو نہیں دینی چاہئے اس طرح کرنے سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ چپل کے اوپر چپل نہیں رکھنی چاہئے۔جھاڑو کھڑی نہیں رکھنی چاہئے۔چارپائی پر چادر لمبائی والی جانب کھڑے ہوکر نہیں بچھانی چاہئے۔
ج… یہ ساری باتیں شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، ان کی حیثیت توہم پرستی کی ہے۔
توہم پرستی کی چند مثالیں:
س… بعض لوگوں سے سنا ہے کہ رات کے وقت چوٹی نہ کرو، جھاڑو نہ دو، ناخن نہ کاٹو، منگل کو بال اور ناخن جسم سے الگ نہ کرو، ان سب باتوں سے نیستی آتی ہے۔ کھانا کھاکر جھاڑو نہ دو، رزق اڑتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔
ج… یہ محض توہمات ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں۔
الٹی چپل کو سیدھی کرنا:
س… ہم نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ راستے میں جو چپل الٹی پڑی ہو اسے سیدھی کردینی چاہئے، کیونکہ نعوذ باللہ اس سے اوپر لعنت جاتی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا الٹی چپل سیدھی کرنی چاہئے؟
ج… الٹی چیز کو سیدھا کرنا تو اچھی بات ہے، لیکن آگے آپ نے جو لکھا ہے اس کی کوئی اصل نہیں، محض لغو بات ہے۔
 فال کھلوانا :
س… کیا استخارہ لینا کسی بھی کام کرنے سے پہلے اور فال کھلوانا شرعی نقطہ نظر سے درست ہے؟
ج… سنت طریقے کے مطابق استخارہ تو مسنون ہے، حدیث میں اس کی ترغیب آئی ہے، اور فال کھلوانا ناجائز ہے۔
قرآن مجید سے فال نکالنا :
س… ہم چار بہنیں ہیں، والد چار سال پہلے انتقال کرچکے ہیں، والدہ حیات ہیں، میں سب سے چھوٹی ہوں، مجھ سے بڑی تینوں بہنیں غیرشادی شدہ ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم سنی مسلم گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے کچھ دور کے رشتہ دار ہیں جو کہ قادیانیوں میں سے ہیں، ہمارا ان کے ساتھ کوئی خاص میل جول نہیں ہے۔ میرے والد کی وفات کے بعد ان لوگوں نے میری بڑی بہن کیلئے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا، امی نے انکار تو نہ کیا (اقرار بھی نہ کیا)، لیکن سوچنے کیلئے کچھ وقت مانگا، میری امی کو میری نانی نے مشورہ دیا کہ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے پوچھا جائے۔ امی نے قرآن مجید سے ابو کے بارے میں سوال پوچھا تو اس میںسورة المومنون کی 25ویں آیت کے تحت واضح طور پر جواب تھا کہ’بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرلو۔‘ سو میرا باپ مرنے تک صحیح نہ ہوسکا، قرآن میں واضح طور پر جواب مل گیا تھا اس لئے ہم سب کو پختہ یقین تھا کہ ہم کو قرآن پاک ہی صحیح مشورہ دے گا۔ اس لئے جب یہ رشتہ آیا تو امی نے بہت ہی پریشانی کے عالم میں یہ سوال پوچھا کہ’ہم مسلمان ہیں اور لڑکا غیرمسلم ماں باپ کا بیٹا ہے، اس لئے تھوڑی سی خلش ہے، کیا ہم وہاں ہاں کردیں؟‘ تو قرآن پاک میںسورة التوبہ کی 21ویں آیت کے تحت یہ جواب آیا تھا کہ’اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کیلئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی (اور) ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘ سب کو یہ جواب پڑھ کر تسلی ہوئی لیکن بعض رشتہ دار اور خود میری بہن صرف اس وجہ سے انکاری تھے کہ وہ غیرمسلم ہیں، اس لئے امی مزید پریشان ہوگئی ہیں اور بیمار پڑگئی ہیں، امی نے ایک مرتبہ پھر قرآن مجید میں پوچھا تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس میںسورة التوبہ کی چالیسویں آیت کے تحت واضح طور پر یہ الفاظ تھے کہ’آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔‘ چونکہ قرآن مجید چھوٹے بڑے ہوتے ہیں اور ہمارا قرآن پاک چھوٹا ہے اس لئے صفحہ جب شروع ہوتا ہے تو یہی الفاظ جو میں نے بیان کئے ہیں الگ الگ صفحات پر درج ہیں، یہ میں آپ کو اس لئے بتارہی ہوں کہ جب آپ ان آیات کا ترجمہ پڑھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے قرآن مجید میں وہ آگے پیچھے ہوں۔آپ بھی مسلمان ہیں اور قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتے ہیں، مجھے احساس ہے کہ آپ دوسرے علماءکی طرح غیرمسلموں کو برا سمجھتے ہیں، ہم بہت پریشان ہیں، اب انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے قرآن سے پوچھ لیا تو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ لیا، اور اگر ہم نے نہ کردی تو اللہ تعالیٰ نہ جانے ہمارے لئے کون سی سزائیں منتخب کرے گا؟ مجھے احساس ہے کہ آپ کا کیا جواب ہوگا لیکن بس آپ میری یہ مشکل حل کردیں۔ آیا ہم قرآن مجید سے پوچھنے کے باوجود ’نہ‘ کرسکتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جو الفاظ آئے ہیں وہ اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔
ج… آپ کے سوال میں چند امور توجہ طلب ہیں، ان کو الگ الگ لکھتا ہوں۔
اول:…قادیانی باجماع امت مرتد اور زندیق ہیں، کسی مسلمان لڑکی کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا، اس لئے اپنی بچی کافر کے حوالے ہرگز نہ کیجئے ورنہ ساری عمر زنا اور بدکاری کا وبال ہوگا اور اس گناہ میں آپ دونوں ماں بیٹی بھی شریک ہوں گی۔
دوم:…قرآن مجید سے فال دیکھنا حرام اور گناہ ہے، اور اس فال کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنا نادانی ہے، کیونکہ قرآن مجید کے صفحے مختلف ہوسکتے ہیں، ایک شخص فال کھولے گا تو کوئی آیت نکلے گی اور دوسرا کھولے گا تو دوسری آیت نکلے گی۔ جو مضمون میں پہلی آیت سے مختلف ہوگی، پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم سے فال نکال کر کسی شخص نے کوئی کام کیا اور اس کا انجام اچھا نہ نکلا تو قرآن کریم سے بدعقیدگی پیدا ہوگی، جس کا نتیجہ کفر تک نکل سکتا ہے۔ بہرحال علمائے امت نے اس کو ناجائز اور گناہ فرمایا ہے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ کے مجموعہ فتاویٰ ’کفایة المفتی‘ میں ہے:
س:…ایک لڑکی کے کچھ زیوارت کسی نے اتار لئے، لوگوں کا خیال ایک شخص کی طرف گیا اور فال کلام مجید سے نکالی گئی اور اسی شخص کا نام نکلا جس کی طرف خیال گیا تھا، اس کو جب معلوم ہوا تو اس نے مسجد میں جاکر قرآن مجید کے چند ورق پھاڑ لئے اور ان پر پیشاب کردیا۔ (نعوذ باللہ!) اور کہنے لگا کہ قرآن مجید بھی جھوٹا اور مولوی بھی سالا جھوٹا۔ آیا یہ شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور ہوسکتا ہے تو کیسے؟
ج:…شریعت میں فال نکالنا منع ہے، اور اس کے منع ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ اول تو یہ کہ علم غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ممکن ہے کہ نام غلط نکلے اور پھر جس کا نام نکلے خدانخواستہ کہیں وہ ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جیسے اس شخص نے کی۔ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جو آپ نے دیکھا۔ جس شخص نے کلام مجید او رمولویوں کے ساتھ ایسی گستاخیاں کی ہیں وہ کافر ہے، لیکن نہ ایسا کافر کہ کبھی اسلام میں داخل نہ ہوسکے، بلکہ جدید توبہ سے وہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آئندہ فال نکالنے سے احتراز چاہئے تاکہ فال نکال کر نام نکالنے والے شخص کی طرح خود بھی اور جس کا نام نکلا تھا اسے بھی گناہ گار نہ کریں۔ اس شخص سے توبہ کرانے کے بعد اس کی بیوی سے تجدیدِ نکاح لازم ہے۔بحوالہ کفایت المفتی ج:9ص:129
ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
ج:…قرآن مجید سے فال نکالنی ناجائز ہے، فال نکالنی اور اس پر عقیدہ کرنا کسی اور کتاب (مثلاً دیوانِ حافظ یا گلستان وغیرہ) سے بھی ناجائز ہے، مگر قرآن مجید سے نکالنی تو سخت گناہ ہے کہ اس سے بسااوقات قرآن مجید کی توہین یا اس کی جانب سے بدعقیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔‘کسی کو شک ہوتو وہ کفایة المفتی ج:9 ص:221سے رجوع کرلے۔
اسی کتاب کے صفحہ 223پرایک اور جگہ مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’چور کا نام نکالنے کیلئے قرآن مجید سے فال لینا ناجائز ہے اور اس کو یہ سمجھنا کہ یہ قرآن مجید کو ماننا یا نہ ماننا ہے، غلط ہے۔ اس لئے حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ: تم قرآن مجید کو مانتے ہو تو زید کے دس روپے دے دو کیونکہ قرآن مجید نے تمہیں چور بتایا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں تھا۔‘
پس آپ کا اور آپ کی والدہ کا اس ناجائز فعل کو حجت سمجھنا قطعاً غلط اور گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔
سوم:…آپ کی والدہ نے آپ کے والد صاحب کے بارے میں سورة المومنون کی آیت نمبر:25 کی جو یہ فال نکالی تھی:
’بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے، سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرو۔‘
قرآن مجید کھول کر اس سے آگے پیچھے پڑھ لیجئے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافروں کا قول نقل کیا ہے جو وہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اب اگر یہ قول صحیح ہے تو آپ کے والد صاحب کی مثال نوح علیہ السلام کی ہوئی اور آپ کی والدہ کی مثال قومِ نوح کے کافروں کی ہوئی، کیا آپ اور آپ کی والدہ اس مثال کو اپنے لئے پسند کریں گے؟ فرمانِ خدا (جس کا آپ حوالہ دے رہی ہیں) تو یہ ہے کہ اس فقرہ کے کہنے والے کافر ہیں اور جس شخص کے بارے میں یہ فقرہ کہا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہے۔ میں تو قرآن کریم کے لفظ لفظ پر ایمان رکھتا ہوں، کیا آپ بھی اس فرمانِ خدا پر ایمان رکھیں گے؟
چہارم:…اب کافر لڑکے کے بارے میں آپ کی والدہ نے سورہ توبہ سے جو فال نکالی اس کو دیکھئے! اس سے اوپر کی آیت میں ان اہل ایمان کا ذکر ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کیا، چنانچہ ارشاد ہے: “جو لوگ ایمان لائے اور (اللہ کے واسطے) انہوں نے ترکِ وطن کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا۔‘ انہی کے بارے میں فرمایا ہے:
’ان کارب ان کو بشارت دیتا ہے، اپنی طرف سے بڑی رحمت اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کیلئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی اور ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘
کیا دنیا کا کوئی عقل مند ان آیات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کامل اہل ایمان اور مہاجرین و مجاہدین کے بارے میں نازل ہوئیں، فال کھول کر فاسقوں، بدکاروں اور کافروں، مرتدوں پر چسپاں کرنے لگے گا اور اس کو فرمانِ الٰہی سمجھ کر لوگوں کے سامنے کرے گا؟ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے:
’اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو (اپنا) رفیق مت بناو?، اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے (ایسا) عزیز رکھیں (کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا، سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔بحوالہ التوبہ:23
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کافر، کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ تمہارے کیسے ہی عزیز ہوں، خواہ باپ، بھائی اور بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، ان کو اپنا دوست و رفیق نہ بناو اور ان سے محبت و مودت کا کوئی رشتہ نہ رکھو اور تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا اس کا نام ظالموں اور خدا کے نافرمانوں میں لکھا جائے گا۔ اب بتائیے کہ جن قادیانی مرتدوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دے رکھی ہے، اور جنہوں نے قادیان کے غلام احمد کو (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ‘ بنا رکھا ہے، ایسے کافروں کو اپنی بیٹی اور بہن دے کر آپ کس زمرے میں شمار ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کا نام ظالم رکھتا ہے، آپ اپنے لئے کون سا نام پسند کریں گی؟
پنجم:…آپ کی امی نے تیسری فال قادیانیوں کے کافر قرار دئیے جانے پر نکالی اور اس میں یہ الفاظ نکلے:
’آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔‘
ذرا اس پوری آیت کو پڑھ کر دیکھئے کہ یہ کس کے بارے میں ہے؟ یہ آیت مقدسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے، مکہ کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا تھا اس کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو فرماتے ہیں:
’اگر تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کروگے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اس وقت کرچکا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں نے جلاوطن کردیا تھا، جبکہ دو آدمیوں میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جس وقت کہ دونوں غار میں تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہی سے فرما رہے تھے کہ تم کچھ غم نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ہمراہ ہے۔‘
مکہ سے نکالنے والے مکہ کے کافر تھے، اور جن کو نکالا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے یارِ غار حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کی امی فال کے ذریعہ قادیانیوں پر اس آیت کو چسپاں کرکے قادیانیوں کو نعوذ باللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مماثل بنا رہی ہیں اور تمام امت مسلمہ کو، جس نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہے، مکہ کے کافر بنارہی ہیں، یہ ہیں آپ کی امی کی کھولی ہوئی فال کے کرشمے اور لطف یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے معنی و مفہوم سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان کرشموں کو خدا کا فرمان بتارہی ہیں۔ خدا کیلئے ان باتوں سے توبہ کیجئے، اور اپنا ایمان برباد نہ کیجئے۔ اس قادیانی مرتد کو ہرگز لڑکی نہ دیجئے کیونکہ میں اوپر فرمانِ خداوندی نقل کرچکا ہوں کہ ایسے کافروں سے دوستی اور رشتہ ناطہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم اور نافرمان ٹھہرایا ہے۔ اگر آپ نے اس فرمانِ الٰہی کی پروا نہ کی اور لڑکی قادیانی مرتد کو دے دی، تو اس ظلم کی ایسی سزا دنیا و آخرت میں ملے گی کہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی اسے یاد رکھیں گی!
دست شناسی اور اسلام:
س… اسلام کی رو سے دست شناسی جائز ہے یا نہیں؟ اس کا سیکھنا اور ہاتھ دیکھ کر مستقبل کا حال بتانا جائز ہے یا نہیں؟
ج… ان چیزوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔
دست شناسی کی کمائی:
س… علم نجوم پر لکھی ہوئی کتابیں (پامسٹری) وغیرہ پڑھ کر لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر حالات بتانا یعنی پیش گوئیاں کرنا اور اس پیشہ سے کمائی کرنا ایک مسلمان کیلئے جائز ہے؟
ج… جائز نہیں۔
ستاروں کا علم:
س… کیا ستاروں کے علم کو درست اور صحیح سمجھا جاسکتا ہے؟ اور کیا اس پر یقین کرنے سے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑتا؟
ج… ستاروں کا علم یقینی نہیں اور پھر ستارے بذاتِ خود مو?ثر بھی نہیں، اس لئے اس پر یقین کرنے کی ممانعت ہے۔
نجوم پر اعتقاد :
س… میں نے اپنے لڑکے کی شادی کا پیغام ایک عزیز کے ہاں دیا، انہوں نے کچھ دن بعد جواب دیا کہ میں نے علم الاعداد اور ستاروں کا حساب نکلوایا ہے، میں مجبور ہوں کہ بچوں کے ستارے آپس میں نہیں ملتے، اس لئے میری طرف سے انکار سمجھیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ از روئے شرع ان کا یہ فعل کہاں تک درست ہے؟
ج… نجوم پر اعتقاد کفر ہے۔
اہل نجوم پر اعتماد :
س… اکثر اہل نجوم کہتے ہیں کہ سال میں ایک دن، ایک مقررہ وقت ایسا آتا ہے کہ اس مقررہ وقت میں جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اس مقررہ وقت میں ان پڑھ لوگوں کی اکثریت دعائیں مانگنے میں مصروف رہتی ہے۔ مہربانی فرماکر بتائیے کہ کیا دعائیں صرف ایک مقررہ وقت میں اور وہ بھی سال میں ایک دن قبول ہوتی ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سال کے باقی دنوں میں دعائیں نہ مانگی جائیں؟
ج… اسلام کے نقطہ نظر سے تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت (جس کی تعیین نہیں کی گئی) ایسا آتا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ باقی نجوم پر مجھے نہ عقیدہ ہے، نہ عقیدہ رکھنے کو صحیح سمجھتا ہوں۔
برجوں اور ستاروں میں تاثیر :
س… اپنی قسمت کا حال دریافت کرنا یا اخبارات وغیرہ میں جو کیفیات یا حالات درج کئے جاتے ہیں کہ فلاں برج والے کے ساتھ یہ ہوگا وہ ہوگا، پڑھنا یا معلوم کرنا درست ہے؟ اور اس بات پر یقین رکھنا کہ فلاں تاریخ کو پیدا ہونے والے کا برج فلاں ہے، گناہ ہے؟
ج… اہل اسلام کے نزدیک نہ تو کوئی شخص کسی کی قسمت کا صحیح صحیح حال بتاسکتا ہے، نہ برجوں اور ستاروں میں کوئی ذاتی ت?ثیر ہے۔ ان باتوں پر یقین کرنا گناہ ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور توہم پرست بن جاتے ہیں۔
نجومی کو ہاتھ دکھانا:
س… ہمیں ہاتھ دکھانے کا بہت شوق ہے، ہر دیکھنے والے کو دکھاتے ہیں۔ بتائیے کہ یہ باتیں ماننی چاہئیں یا نہیں؟
ج… ہاتھ دکھانے کا شوق بڑا غلط ہے، اور ایک بے مقصد کام بھی، اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔ جس شخص کو اس کی لت پڑجائے وہ ہمیشہ پریشان رہے گا اور ان لوگوں کی انٹ شنٹ باتوں میں الجھا رہے گا۔
جو منجم سے مستقبل کا حال پوچھے، اس کی چالیس دن کی نمازقبول نہیں ہوتی۔
س… میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ستاروں کے علم پڑھنے سے یعنی جس طرح اخبارات اور رسالوں میں دیا ہوا ہوتا ہے کہ’یہ ہفتہ آپ کا کیسا رہے گا؟‘پڑھنے سے خدا تعالیٰ اس شخص کی چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا۔ جب میں نے یہ بات اپنے ایک عزیز دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کہ خداوند تعالیٰ چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا، ویسے ستاروں کے علم پر تو میں یقین نہیں رکھتا کیونکہ ایسی باتوں پر یقین رکھنے سے ایمان پر دیمک لگ جاتی ہے۔ تو اس سلسلہ میں بتائیے کہ کس کا نظریہ درست ہے؟
ج… اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ’جو شخص کسی’عراف‘ کے پاس گیا، پس اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔بحوالہ صحیح مسلم ج:2ص:233
ستاروں کے ذریعہ فال نکالنا:
س… ایک لڑکے کا رشتہ طے ہوا، لڑکی والوں نے تمام معلومات بھی کرلیں کہ لڑکا ٹھیک ٹھاک اور نیک ہے۔ پھر لڑکی والوں نے کہا کہ ہم تین دن بعد جواب دیں گے۔ ان کے گھرانے کے کوئی بزرگ ہیں جو امام مسجد بھی ہیں اور لڑکی والے ہر کام ان کے مشورے سے کرتے ہیں۔ جمعرات کے دن رات کو امام صاحب نے کوئی وظیفہ کیا اور جمعہ کو لڑکی والوں کو کہا کہ اس لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتا، یہاں شادی نہ کی جائے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب سے آگاہ فرمائیں۔
ج… اسلام ستارہ شناسی کا قائل نہیں، نہ اس پر یقین رکھتا ہے۔ بلکہ حدیث میں اس پر بہت سخت مذمت آئی ہے۔ وہ بزرگ اگر نیک اور باشرع ہیں تو ان کو استخارہ کے ذریعہ معلوم ہوا ہوگا، جو یقینی اور قطعی نہیں، اور اگر وہ کسی عمل کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں تو یہ جائز نہیں۔
علم الاعداد پر یقین :
س… علم الاعداد اور علمِ نجوم میں بڑا فرق ہوتا ہے، اس علم میں یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے نام کو بحساب ابجد ایک عدد کی صورت میں سامنے لایا جاتا ہے، اور پھر جب ’عدد‘ سامنے آجاتا ہے تو علم الاعداد کا جاننے والا اس شخص کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرسکتا ہے۔ ویسے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر اس علم کو محض علم جاننے تک لیا جائے اور اگر اس میں کچھ غلط باتیں لکھی ہوں تو ان پر یقین نہ کیا جائے تو کیا یہ گناہ ہی ہوگا؟
ج… علمِ نجوم اور علم الاعداد میں مآل اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ وہاں ستاروں کی گردش اور ان کے اوضاع (اجتماع و افتراق) سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے، اور یہاں بحساب جمل اعداد نکال کر ان اعداد سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ گویا علم نجوم میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثرانداز سمجھا جاتا ہے، اور علم الاعداد میں نام کے اعداد کی تاثیرات کے نظریہ پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان چیزوں کو موثر حقیقی سمجھنا ہی کفر ہے، علاوہ ازیں محض اٹکل پچو اتفاقی امور کو قطعی و یقینی سمجھنا بھی غلط ہے، لہٰذا اس علم پر یقین رکھنا گناہ ہے، اگر فرض کیجئے کہ اس سے اعتقاد کی خرابی کا اندیشہ نہ ہو، نہ اس سے کسی مسلمان کو ضرر پہنچے، نہ اس کو یقینی اور قطعی سمجھا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا سیکھنا گناہ نہیں، مگر ان شرائط کے باوجود اس کے فعلِ عبث ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ ان چیزوں کی طرف توجہ کرنے سے آدمی دین و دنیا کی ضروری چیزوں پر توجہ نہیں دے سکتا۔
ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا :
س… قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا چاہئے یا نہیں؟
ج… قرآن و حدیث کی روشنی میں ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا درست نہیں۔
الو کا بولنا اور نحوست:
س… اگر کسی مکان کی چھت پر الو بیٹھ جائے یا کوئی شخص الو دیکھ لے تو اس پر تباہیاں اور مصیبتیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ ایک منحوس جانور ہے۔ اس کے برعکس مغرب کے لوگ اسے گھروں میں پالتے ہیں۔ مہربانی فرماکر یہ بتائیں کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج… نحوست کا تصور اسلام میں نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ الّو ویرانہ چاہتا ہے، جب کوئی قوم یا فرد اپنی بدعملیوں کے سبب اس کا مستحق ہو کہ اس پر تباہی نازل ہو تو الّو کا بولنا اس کی علامت ہوسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ الّو کا بولنا تباہی و مصیبت کا سبب نہیں بلکہ انسان کی بدعملیاں اس کا سبب ہیں۔
شادی پر دروازے میں تیل ڈالنے کی رسم:
س… شادی بیاہ کے معاملوں میں ہمارے توہم پرست لوگ حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ شادی والے دن جب دولہا میاں دلہن کو لے کر گھر آتا ہے تو دولہا اور دلہن اس وقت تک گھر کے دروازے کے اندر نہیں آسکتے جب تک گھر کے دروازے کے دونوں طرف تیل نہ پھینک دیا جائے، بعد ازاں دلہن اس وقت تک کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاسکتی جب تک ایک خاص قسم کا کھانا جس میں بہت سی اجناس شامل ہوتی ہیں پکا نہیں لیتی۔ میرے خیال میں یہ سراسر توہم پرستی اور فضول رسمیں ہیں، کیونکہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں ایسے کسی رسم و رواج کا پتہ نہیں ملتا۔ برائے مہربانی آپ شریعت کی رو سے بتائیں کہ اسلامی معاشرے میں ایسی رسوم کی کیا حیثیت ہے؟
ج… آپ نے جن رسموں کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ توہم پرستی ہے، غالباً یہ اور اس قسم کی دوسری رسمیں ہندو معاشرہ سے لی گئی ہیں۔
 بچے کے سیاہ دھاگا باندھنا:
س… بچے کی پیدائش پر مائیں اپنے بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کیلئے اس کے گلے یا ہاتھ کی کلائی میں کالے رنگ کی ڈوری باندھ دیتی ہیں، یا بچے کے سینے یا سر پر کاجل سے سیاہ رنگ کا نشان لگادیا جاتا ہے تاکہ بچے کو بری نظر نہ لگے۔ کیا یہ فعل درست ہے؟
ج… محض توہم پرستی ہے۔
غروبِ آفتاب کے فوراً بعد بتی جلانا:
س… بعد غروبِ آفتاب فوراً بتی یا چراغ جلانا ضروری ہے یا نہیں؟ اگرچہ کچھ کچھ اجالا رہتا ہی ہو۔ بعض لوگ بغیر بتی جلائے مغرب کی نماز پڑھنا درست نہیں سمجھتے، اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے؟
ج… یہ توہم پرستی ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
منگل اور جمعہ کے دن کپڑے دھونا:
س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جمعہ اور منگل کو کپڑے نہیں دھونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے رزق (آمدنی) میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
ج… بالکل غلط! توہم پرستی ہے۔
ہاتھ دکھاکر قسمت معلوم کرنا:
س… ہاتھ دکھا کر جو لوگ باتیں بتاتے ہیں، وہ کہاں تک صحیح ہوتی ہیں؟ اور کیا ان پر یقین کرنا چاہئے؟
ج… ایسے لوگوں کے پاس جانا گناہ اور ان کی باتوں پر یقین کرنا کفر ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایاکہ’جو شخص کسی پنڈت نجومی یا قیافہ شناس کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘مسند احمد اور ابوداود کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین شخصوں کے بارے میں فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین سے بری ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے۔
آنکھوں کا پھڑکنا:
س… میں نے سنا ہے کہ سیدھی آنکھ پھڑکے تو کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے اور بائیں پھڑکے تو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب دیں۔
ج… قرآن و حدیث میں اس کاکوئی ثبوت نہیں، محض بے اصل بات ہے۔
عصر و مغرب کے درمیان کھانا کھانا:
س… کیا عصر کی نماز سے مغرب کی نماز کے دوران کھانا نہیں کھانا چاہئے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اس وقت مردے کھانا کھاتے ہیں۔
ج… عصر و مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے، اور اس وقت مردوں کا کھانا جو آپ نے لکھا ہے وہ فضول بات ہے۔
توہم پرستی کی باتیں:
س… عام طور پر ہمارے گھروں میں یہ توہم پرستی ہے اگر دیوار پر کوّا آکر بیٹھے تو کوئی آنے والا ہوتا ہے۔ پاوں پر جھاڑو لگنا یا لگانا برا فعل ہے، شام کے وقت جھاڑو دینے سے گھر کی نیکیاں بھی چلی جاتی ہیں، دودھ گرنا بری بات ہے، کیونکہ دودھ پوت (بیٹے) سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
مثال:…ایک عورت بیٹھی ہوئی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، قریب ہی دودھ چولہے یا انگیٹھی پر گرم ہو رہا ہے، اگر وہ ابل کر گرنے لگے تو بیٹے کو دور پھینک دے گی اور پہلے دودھ کو بچائے گی۔
اگر کوئی اتفاق سے کنگھی کرکے اس میں جو بال لگ جاتے ہیں، وہ گھر میں کسی ایک کونے میں ڈال دے اور پھر کسی خاتون کی اس پر نظر پڑجائے تو وہ کہے گی کہ کسی نے ہم پر جادو ٹونہ کرایا ہے۔
ایسی ہی ہزاروں توہم پرستیاں ہمارے معاشرے میں داخل ہوچکی ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے آباءو اجداد قدیم زمانے سے ہندووں اور سکھوں کے ساتھ رہے ہیں، ان ہی کی رسومات بھی ہمارے ماحول میں داخل ہوگئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی اصلاح فرمائیں۔

ج… ہمارے دین میں توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ نے جتنی مثالیں لکھی ہیں یہ سب غلط ہیں۔ البتہ دودھ خدا کی نعمت ہے، اس کو ضائع ہونے سے بچانا اور اس کیلئے جلدی سے دوڑنا بالکل درست ہے، عورت کے سر کے بالوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو پھینکا نہ جائے تاکہ کسی نامحرم کی نظر ان پر نہ پڑے، باقی یہ بھی صحیح ہے کہ بعض لوگ عورت کے بالوں کے ذریعہ جادو کرتے ہیں، مگر ہر ایک کے بارے میں یہ بدگمانی کرنا بالکل غلط ہے۔
جائے نماز کا کونا الٹنا:
س… شیطان مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کیلئے وسوسوں کے ذریعے بہکاتا ہے اور خود عبادت کرتا ہے، اس کو عبادت سے روکنے کیلئے ہم نماز کے بعد جائے نماز کا کونا الٹ دیتے ہیں، اس طرح عبادت سے روک دینے کے عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج… اس سوال میں آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شیطان دوسروں کو عبادت سے روکتا ہے مگر خود عبادت کرتا ہے۔ شیطان کا عبادت کرنا غلط ہے، عبادت تو حکمِ الٰہی بجالانے کا نام ہے، جبکہ شیطان حکمِ الٰہی کا سب سے بڑا نافرمان ہے، اس لئے یہ خیال کہ شیطان عبادت کرتا ہے بالکل غلط ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ کہ مصلیٰ کا کونا ا لٹنا شیطان کو عبادت سے روکنے کیلئے ہے، یہ قطعاً غلط ہے۔ مصلیٰ کا کونا الٹنے کا رواج تو اس لئے ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلاضرورت جائے نماز بچھی نہ رہے اور وہ خراب نہ ہو۔ عوام جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جائے نماز نہ الٹی جائے تو شیطان نماز پڑھتا ہے، یہ بالکل مہمل اور لایعنی بات ہے۔
نقصان ہونے پر کہنا کہ کوئی منحوس صبح ملا ہوگا:
س… جب کسی شخص کو کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے کہ’آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی۔‘جبکہ انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صرف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نحوست میں گزرتا ہے؟
ج… اسلام میں نحوست کا تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔
الٹے دانت نکلنے پر بدشگونی :
س… بچے کے دانت اگر الٹے نکلتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ ننھیال یا مامووں پر بھاری پڑتے ہیں۔ اس کی کیا اصل ہے؟
ج… اس کی کوئی اصل نہیں! محض توہم پرستی ہے۔
چاند گرہن یا سورج گرہن :
س… میں نے سنا ہے کہ جب چاند گرہن یا سورج گرہن ہوتا ہے تو ان کو اذیت پہنچتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
ج… درست نہیں! محض غلط خیال ہے۔
عورت کا روٹی پکاتے ہوئے کھالینا:
س… میری امی کہتی ہیں کہ جب عورت روٹی پکاتی ہے تو اسے حکم ہے کہ تمام روٹیاں پکاکر ہاتھ سے لگا ہوا آٹا اتار کر روٹی کھائے، عورت کو جائز نہیں کہ وہ روٹیاں پکاتے پکاتے کھانے لگے، یعنی آدھی روٹیاں پکائیں اور کھانا شروع کردیا، تو ایسا کرنے والی عورت جنت میں داخل نہ ہوسکے گی۔ آپ بتائیے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج… آپ کی امی کی نصیحت تو ٹھیک ہے، مگر مسئلہ غلط ہے۔ عورت کو روٹی پکانے کے دوران بھی کھانا کھالینا شرعاً جائز ہے۔
جمعہ کے دن کپڑے دھونا:
س… میں نے سنا ہے کہ جمعہ اور منگل کے دن کپڑے دھونا نہیں چاہئے، اور بہت سے لوگ جمعہ کے دن نماز ہوجانے کے بعد کپڑے دھوتے ہیں، اور کہاں تک یہ طریقہ درست ہے؟ اور اس طرح بہت سے لوگ جو پردیس میں ہوتے ہیں اور ان کی جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے تو وہ لوگ کپڑے دھوتے ہیں اس لئے کہ جمعہ کے علاوہ ان کو ٹائم نہیں ملتا۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ وہ لوگ جمعہ اور منگل کو کپڑے دھونے کی اجازت دیتے ہیں جو لوگ نماز پڑھتے ہیں کیا قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے یا نہیں؟
ج… جمعہ اور منگل کے دن کپڑے نہ دھونے کی بات بالکل غلط ہے۔
عصر اور مغرب کے دوران کھانا پینا:
س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عصر اور مغرب کے درمیان کچھ کھانا پینا نہیں چاہئے کیونکہ نزع کے وقت انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصر و مغرب کا درمیانہ وقت ہے اور شیطان شراب کا پیالہ پینے کو دے گا تو جن لوگوں کو عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے کی عادت ہوگی وہ شراب کا پیالہ پی لیں گے اور جن کو عادت نہ ہوگی وہ شراب پینے سے پرہیز کریں گے (نیز اس وقفہ عصر و مغرب کے درمیان کچھ نہ کھانے پینے سے روزے کا ثواب ملتا ہے)۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دے کر ایک الجھن سے نجات دلائیں۔
ج… یہ دونوں باتیں غلط ہیں! عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے میں کوئی کراہت نہیں۔
کٹے ہوئے ناخن کا پاوں کے نیچے آنا، پتلیوں کا پھڑکنا، کالی بلی کا راستہ کاٹنا:

س… 1:  سنا ہے کہ اگر کاٹا ہوا ناخن کسی کے پاوں کے نیچے آجائے تو وہ شخص اس شخص کا (جس نے ناخن کاٹا ہے) دشمن بن جاتا ہے؟
2:…جناب کیا پتلیوں کا پھڑکنا کسی خوشی یا غمی کا سبب بنتا ہے؟
3:…اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو کیا آگے جانا خطرے کا باعث بن جائے گا؟

ج… یہ تینوں باتیں محض توہم پرستی کی مد میں آتی ہیں، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
زمین پر گرم پانی ڈالنا:
س… زمین پر گرم پانی وغیرہ گرانا منع ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ گناہ ہے، زمین کو تکلیف ہوتی ہے۔
ج… محض غلط خیال ہے!
نمک زمین پر گرنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن قصداً گرانا برا ہے۔
س… کیا نمک اگر زمین پر گر جائے (یعنی پیروں کے نیچے آئے) تو روزِ قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا؟
ج… نمک بھی خدا کی نعمت ہے، اس کو زمین پر نہیں گرانا چاہئے، لیکن جو سزا آپ نے لکھی ہے وہ قطعاً غلط ہے۔
پتھروں کا انسان کی زندگی پر اثرانداز ہونا:
س… ہم جو انگوٹھی وغیرہ پہنتے ہیں اور اس میں اپنے نام کے ستارے کے حساب سے پتھر لگواتے ہیں، مثال کے طور پر عقیق، فیروزہ، وغیرہ وغیرہ، کیا یہ اسلام کی رو سے جائز ہے؟ اور کیا کوئی پتھر کا پہننا بھی سنت ہے؟
ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، انسان کے اعمال اثرانداز ہوتے ہیں۔

فیروزہ پتھر:
س… لعل، یاقوت، زمرد، عقیق اور سب سے بڑھ کر فیروزہ کے نگ کو انگوٹھی میں پہننے سے کیا حالات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے؟ اور اس کا پہننا اور اس پر یقین رکھنا جائز ہے؟
ج… پتھروں کو کامیابی و ناکامی میں کوئی دخل نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا نام فیروز تھا، اس کے نام کو عام کرنے کیلئے سبائیوں نے ’فیروزہ‘ کو متبرک پتھر کی حیثیت سے پیش کیا۔ پتھروں کے بارے میں نحس و سعد کا تصور سبائی افکار کا شاخسانہ ہے۔
پتھروں کی اصلیت:
س… میری خالہ جان چاندی کی انگوٹھی میں فیروزہ کا پتھر پہننا چاہتی ہیں، آپ برائے مہربانی ذرا پتھروں کی اصلیت کے بارے میں وضاحت کریں۔ ان کا واقعی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا یہ سب داستانیں ہیں؟ اگر ان کا وجود ہے تو فیرزہ پتھر کس وقت؟ کس دن؟ اور کس دھات میں پہننا مبارک ہے؟
ج… پتھروں سے آدمی مبارک نہیں ہوتا، انسان کے اعمال اس کو مبارک یا ملعون بناتے ہیں۔ پتھروں کو مبارک و نامبارک سمجھنا عقیدے کا فساد ہے جس سے توبہ کرنی چاہئے۔
پتھروں کے اثرات کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟
س… اکثر لوگ مختلف ناموں کے پتھروں کی انگوٹھیاں ڈالتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں پتھر میری زندگی پر اچھے اثرات ڈالتا ہے اور ساتھ ساتھ ان پتھروں کو اپنے حالات اچھے اور برے کرنے پر یقین رکھتے ہیں، بتائیں کہ شرعی لحاظ سے ان پتھروں پر ایسا یقین رکھنا اور سونے میں ڈالنا کیسا ہے؟
ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، اس کے نیک یا بدعمل اس کی زندگی کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار ہیں، پتھروں کو اثرانداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں اور سونے کی انگوٹھی مردوں کو حرام ہے۔