حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: ۔
”حقیقت یہ ہے کہ علمائے دیوبند کا جو خاص امتیاز ہے وہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو مٹانا، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتا، جب میں تھانہ بھون میں حاضر ہوا، حضرت رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے ایک شان جلال او رایک رعب اور وجاہت عطا فرمائی تھی، چہرہ مبارک بڑا وجیہ تھا، اگر وہ اپنی وجاہت کو چھپانا بھی چاہیں تو نہیں چھپا سکتے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود طالب علموں اور دوسرے لوگوں میں ملے جلے رہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے مغرب کے بعد آپ کو دیکھا کہ ایک صاحب کرتا اتار ے ہوئے، صرف پائجامہٴ پہنے ہوئے، حوض کے پاس چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ یہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں او رپاس میں طلبہ بھی تھے، بعد میں پتہ چلا کہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں۔
اس طرح ان حضرات کی خاص شان تھی، یہ چیز دنیا میں شاذونادر ہی ملتی ہے ،یہ خصوصی وصف الله تعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا تھا، افسوس! اب ہمارے پاس بزرگوں کی صحبت حاصل نہیں رہی، صرف مدارس اورکتابیں رہ گئی ہیں ، الله تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ وصف پیدا فرما دے۔ آمین۔
”حقیقت یہ ہے کہ علمائے دیوبند کا جو خاص امتیاز ہے وہ یہ تھا کہ اپنے آپ کو مٹانا، اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھتا، جب میں تھانہ بھون میں حاضر ہوا، حضرت رحمة الله علیہ کو الله تعالیٰ نے ایک شان جلال او رایک رعب اور وجاہت عطا فرمائی تھی، چہرہ مبارک بڑا وجیہ تھا، اگر وہ اپنی وجاہت کو چھپانا بھی چاہیں تو نہیں چھپا سکتے، لیکن ان سب باتوں کے باوجود طالب علموں اور دوسرے لوگوں میں ملے جلے رہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے مغرب کے بعد آپ کو دیکھا کہ ایک صاحب کرتا اتار ے ہوئے، صرف پائجامہٴ پہنے ہوئے، حوض کے پاس چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں، میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا او رمجھے پتہ بھی نہیں کہ یہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں او رپاس میں طلبہ بھی تھے، بعد میں پتہ چلا کہ حضرت والا لیٹے ہوئے ہیں۔
اس طرح ان حضرات کی خاص شان تھی، یہ چیز دنیا میں شاذونادر ہی ملتی ہے ،یہ خصوصی وصف الله تعالیٰ نے ان بزرگوں کو دیا تھا، افسوس! اب ہمارے پاس بزرگوں کی صحبت حاصل نہیں رہی، صرف مدارس اورکتابیں رہ گئی ہیں ، الله تعالیٰ ہمارے اندر بھی یہ وصف پیدا فرما دے۔ آمین۔
( مجالس مفتی اعظم:526)
حضرت تھانوی رحمہ الله کے معمولات میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ نے یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے نہ چلے، میرے ساتھ نہ چلے، جب میں تنہا کہیں جار ہاہوں تو مجھے تنہا جانے دیا کرو، حضرت فرماتے کہ یہ مقتدا کی شان بنانا کہ جب آدمی چلے تو دو آدمی اس کے دائیں طرف اور دو آدمی اس کے بائیں طرف چلیں، میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، جس طرح ایک عام انسان چلتا ہے ، اسی طرح چلنا چاہیے۔
ایک مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ اگر میں اپنے ہاتھ میں کوئی سامان اٹھا کر جارہا ہوں تو کوئی شخص آکر میرے ہاتھ سے سامان نہ لے ، مجھے اسی طرح جانے دے، تاکہ آدمی کی کوئی امتیازی شان نہ ہو اور جس طرح ایک عام آدمی رہتا ہے اس طریقے سے رہے۔
حضرت تھانوی رحمہ الله کے معمولات میں یہ بات لکھی ہے کہ آپ نے یہ عام اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی شخص میرے پیچھے نہ چلے، میرے ساتھ نہ چلے، جب میں تنہا کہیں جار ہاہوں تو مجھے تنہا جانے دیا کرو، حضرت فرماتے کہ یہ مقتدا کی شان بنانا کہ جب آدمی چلے تو دو آدمی اس کے دائیں طرف اور دو آدمی اس کے بائیں طرف چلیں، میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا، جس طرح ایک عام انسان چلتا ہے ، اسی طرح چلنا چاہیے۔
ایک مرتبہ یہ اعلان فرمایا کہ اگر میں اپنے ہاتھ میں کوئی سامان اٹھا کر جارہا ہوں تو کوئی شخص آکر میرے ہاتھ سے سامان نہ لے ، مجھے اسی طرح جانے دے، تاکہ آدمی کی کوئی امتیازی شان نہ ہو اور جس طرح ایک عام آدمی رہتا ہے اس طریقے سے رہے۔
( اصلاحی خطبات:32/5)
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء