حضرت مولانا مملوک علی صاحب نانوتوی رحمہ الله
حضرت
اقدس، مولانا محمدیعقوب نانوتوی کے والد ماجد اور حضرت مولانا رشید احمد
گنگوہی وحضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہم الله کے استاذ تھے، بڑے ہی
منکسر مزاج، صاحب مروت، خوش اخلاق، متقی، عبادت گزار اور سادہ طبیعت انسان
تھے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نفسانیت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکی، ان کا ایک
واقعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمہ الله نے ”قصص الاکابر“ میں
لکھا ہے کہ ” مولانا مملوک علی ہمیشہ دہلی آتے اورجاتے، جب کاندھلہ سے
گزرتے تو باہر سڑک پر گاڑی چھوڑ کر ملنے آتے، مولانا مظفر حسین صاحب اول یہ
پوچھتے کہ کھانا کھا چکے یا کھاؤ گے؟ اگر کہتے ”کھا چکا“ تو پھر کچھ نہیں
او راگر نہ کھائے ہوئے ہوتے تو کہہ دیتے کہ میں کھاؤں گا ۔تو مولانا پوچھتے
کہ رکھا ہوا لا دوں یاتازہ پکوا دوں؟ چناں چہ ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ رکھا
ہوا لادو اس وقت صرف کھچڑی کی کھرچن تھی اسی کو لے آئے اور فرمایا کہ رکھی
ہوئی تو یہی تھی انہوں نے کہا بس! یہی کافی ہے۔ پھر جب رخصت ہوتے تو
مولانا مظفر حسین صاحب ان کو گاڑی تک پہنچانے جاتے تھے، یہی ہمیشہ کا معمول
تھا۔“ ( سیرت یعقوب ومملوک ص:35,34)
سبحان الله! سادگی، بے تکلفی، حسن معاشرت کی کیسی جیتی جاگتی تصویر ہے، مولانا مظفر حسین کاندھلوی کا خلوص اور بغیر کسی تصنع کے کھرچن کا پیش کرنا او رمولانا مملوک علی صاحب کا اسے بغیر کسی ناگواری کے بے حد خندہ پیشانی سے قبول کرنا، کتنی بہترین زندگی کی طرف راہ دکھاتا ہے، جس میں سکون ہی سکون ہے۔
سبحان الله! سادگی، بے تکلفی، حسن معاشرت کی کیسی جیتی جاگتی تصویر ہے، مولانا مظفر حسین کاندھلوی کا خلوص اور بغیر کسی تصنع کے کھرچن کا پیش کرنا او رمولانا مملوک علی صاحب کا اسے بغیر کسی ناگواری کے بے حد خندہ پیشانی سے قبول کرنا، کتنی بہترین زندگی کی طرف راہ دکھاتا ہے، جس میں سکون ہی سکون ہے۔
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء