پی کے سے کون ہے خوفزدہ؟

 

ایس اے ساگر

     وہ کسی دوسرے سیارے سے آیا تھا۔ یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ زمین پر مذہب کی ریکھائیں کس نے کھینچی ہیں۔ وہ انسان کی پیٹھ پر اس کی مہر تلاش کر رہا تھا۔ وہ دیوتاؤں سے ظاہر ہونے کا اعلان کر رہا تھا۔ وہ دیوتاوں کے کھو جانے کی خبر دے رہا تھا۔ وہ دیوتاؤں کو اپنے دفاع کیلئے استعمال کر رہا تھا۔ اس کی ان گستاخیوں سے دیوتا روٹھے ہوتے تو ودھو ونود چوپڑا کی بنائی اور راج کمار ہیرانی کی ہدایت میں عامر خان کی فلم پی کے اتنی کامیاب نہیں ہوتی۔ بھگتوں سے بھری ہوئی یہ دنیا بھی ناراض ہوئی ہوتی تو اس نے سوا دو سو کروڑ اس فلم کو نہیں دئے ہوتے۔ لیکن دیوتاوں اور انہیں ماننے والوں کے درمیان کھڑے مندروں، مساجد، گرجاگھروں اور مٹھوں میں بیٹھے ہوئے کچھ گرو، مہنت، بابا ناراض ہیں کہ پی کے نے ان کا مذاق بنایا ہے۔ اس کے پیچھے وہ اپنے اپنے طریقہ سے، اپنے اپنے پنتھ کی توہین کر رہے ہیں۔ نہیں، پی کے کوئی عظیم فلم نہیں ہے۔ وہ ایک کاروباری فلم ہی ہے جو تفریح مہیا کرواتی ہے۔ تفریح مہیا کرواتے کرواتے وہ کچھ تواہم پرستی پر حملہ کرتی ہے، کچھ پاکھنڈوں کی طرف بھی دھیان دلاتی ہے۔ لیکن یہ فلم بھگتوں کی قلعی کھولتی ہے، مگر خدا سے ڈر جاتی ہے۔ وہ کسی خدا، کسی دیوتا، کسی مٹھ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش تک نہیں کرتی۔ اسے اندازہ ہے کہ ہندوستان کو بھلے ہی اس کی ضرورت ہو، لیکن مذہب اور سیاست کی دکانیں چلانے والوں کو یہ منظور نہیں ہو گا۔ مگر پی کے اگر خدا سے ڈر رہی ہے تو مذہب کے ٹھیکیدار پی کے سے ڈرے ہوئے ہیں۔ کیونکہ انہیں بھی خدا کو نہیں، اپنے اس نفاق کو بچانا ہے جس سے ان کی دکان چلتی ہے۔ اس ہندوستان میں اب معبودوں کا امتحان کچھ زیادہ ہی سخت ہو گیاہے۔ مندروں،عبادتگاہوں میں اب معبودوں سے زیادہ ایسے مفاد پرست قابض ہیں جو مذہب سے زیادہ سیاست کا کھیل کھیلتے ہیں۔ انہیں جدیدیت خوفزدہ کرتی ہے،ذہنی کشادگی ڈراتی ہے، تفریح سے ڈر لگتا ہے، ہم آہنگی بھی دہشت زدہ کرتی ہے۔ وہ سب کو گیتا پڑھانا چاہتے ہیں، لیکن خدا کے وجود پر خود اعتماد نہیں کرتے۔ وہ ایک فلم کے جواب میں فلم نہیں بنا سکتے، وہ ایک نظم کے جواب میں اچھی شاعری نہیں لکھ سکتے، وہ ایک پینٹنگ کے جواب میں اچھی پینٹنگ نہیں بنا سکتے۔ انہیں بس جلانا، توڑنا اور منہدم کرنا ہی آتا ہے۔ ایسے بھگتوں سے دیوتا بھی ڈرتے ہیں۔
 سینسر بورڈ کا صاف انکار:
یہی وجہ ہے کہ’پی کے‘ کے مبینہ قابل اعتراض مناظر پر پابندی لگانے کی ہندووادی تنظیموں کے مطالبہ کے درمیان سینسر بورڈ نے ایسی کوئی بھی کارروائی کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ مرکزی فلم سرٹیفیکیشن بورڈ عرف سی بی ایف سی کی صدر لیلا سیم سن نے صاف کہہ دیا ہے کہ بورڈ ’پی کے‘ سے کوئی منظر نہیں ہٹائے گا، کیونکہ یہ فلم پہلے ہی ریلیز کی جا چکی ہے۔ لیلا کے بقول’ہر فلم کسی نہ کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس کر دیتی ہے ۔۔۔ ہم غیر ضروری طریقہ سے منظر نہیں ہٹا سکتے۔ تخلیقی کوشش نام کی ایک چیز ہوتی ہے، جس سے لوگ اپنے انداز میں چیزوں کو پیش کرتے ہیں۔ ہم پہلے ہی’پی کے‘ کو سرٹیفکیٹس دے چکے ہیں۔ اب ہم کچھ بھی نہیں ختم کر سکتے، کیونکہ یہ پہلے ہی عوامی ہو چکی ہے۔‘ اس سب سے بے نیاز پی کے ملک بھر میں پھل پھول رہی ہے اور نام نہاد باباؤں کی مارکیٹ پر طنز کے تیر برسا رہی ہے۔ مسئلہ محض عامر خان کا نہیں ہے بلکہ اس فلم میں انشکا شرما، سنجے دت اور سشانت سنگھ راجپوت نے بھی اداکاری کی ہے جبکہ یہ تاثرات کسی شیخ صاحب یا طالبان کہ نہیں بلکہ ہندوستان کے معروف خبررساں ادارہ این ڈی ٹی وی کے ہیں۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عامر خان نے جب منگل پاڈے بن کر انگریزوں کیخلاف بغاوت کی تھی،جب اجے سنگھ راٹھور بن کرپاکستانی آتنکوادی گلفام حسن کو مارا تھا۔ جب عامر خان نے فنسک وانگڑو رینچو بن کر پڑھنے اورجینے کا طریقہ سکھایا تھا۔ جب بھون بن کر برطانوی حکومت سے لڑ کر اپنے گاؤں کا لگان معاف کروایا تھا۔ جب ٹیچر بن کر بچوں کی شخصیت کیسے نکھاری جائے سکھایا تھا۔ ’ستیہ میو جیتے؛جسکو دیکھ کر کافی بیداری آئی؛تو اس وقت عامر خان ایک محب وطن اور ذمہ دارشہری تھا۔ لیکن پر جب عامر نے pk فلم سے مذہب کے نام پرمنافقت اوراوہام پرستی کو اجاگرکیا تو ایک محب وطن اور منجھا ہوا فنکار مسلمان ہو گیا۔عامر خان کا مسلمان ہونے کے نام پر احتجاج وہی عناصر کر رہے ہیں جو چاہتے ہیں کہ مذہب کا دھندہ چلتا رہے۔ چڑھاوے آتے رہیں، لوگ مذہب کے نام پر مرتے کٹتے رہیں!OMG میں بھگوان پر مقدمہ ٹھوکنے والے پریش راول کو تورکن پارلیمنٹ بنا دیا اور اب PK کی مخالفت، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ سنجے دت 24 دسمبر کو پونے کی یروڈا جیل سے 14 دنوں کی چھٹی پر باہر آئے تھے۔عامر خان نے سنجے دت کو کرسمس کے موقعے پر فلم ’پی کے‘ دکھائی تو سنجے دت نے اپنی اہلیہ مانیتا اور اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فلم دیکھی۔ پی کے کی اس سپیشل ا سکریننگ پر فلم کے پروڈیوسر ودھوونود چوپڑا اور ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی بھی وہاں موجود تھے۔ فلم دیکھنے کے بعد سنجے دت نے صحافیوں کو بتایاکہ ’مجھے فلم بہت پسند آئی۔ میرا کردار چھوٹا ہی سہی لیکن بڑا اہم ہے۔سنجے دت نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے جیل کے اندر رہ کر ہی ’پی کے‘ کا پرچار کیا۔ سنجے کے بقول ’میں نے ساتھی قیدیوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر والوں کو خط لکھیں اور ان سے پی کے دیکھنے کیلئے کہیں۔ تو بھیا، اپنے حصے کا پروموشن تو میں نے کر دیا۔‘ کیا سنجے دت،ان کی شریک حیات مانیتا، پروڈیوسر ودھوونود چوپڑا اور ڈائریکٹر راجکمار ہیرانی ہندو نہیں ہیں؟
اطبا سے اختلاف:
اس قسم کے بے شمار اختلافات معاشرہ میں بکھرے پڑے ہیں۔مبصرین کے نزدیک ہندو دھرم کے ماننے والوں کیلئے کسی بھی مافوق الفطرت چیز کو خدا کا درجہ دینے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی اور تواہم پرستی کے اسیر کسی بھی اچھی بری چیز کو خدا کا درجہ دے کر اس کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے ہیں۔رواں برس میں اپریل کے دوران اتر پردیش میں چھ سال کے ایک بچے کی کمر پر بالوں کی دم نما چٹیا نکل آنے پر ہندو ں نے اسے بھی’ہنومان کا بندر‘قرار دیتے ہوئے اس کی پوجا پاٹ شروع کر دی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتر پردیش کے نیگما پور گاو ¿ں کے رہائشی چھ سالہ عمار سنگھ کی کمر کے نچلے حصہ میں پیدائش سے بال نکلنا شروع ہوئے جو اب 30 سینٹی میٹر لمبی ایک مینڈلی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ مقامی ہندو باشندے اسے ہنومان دیوی کی شبیہ قرار دے کر اس کی پوجا کرنے آتے ہیں۔عمار سنگھ کے اہل خانہ کے بقول بچے کی کمر پر پیدائش کے وقت ایک انچ لمبے بال تھے جو وقت گذرنے کے ساتھ بڑھتے چلے گئے اور اب دم کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔’ دم دار‘بچے کے والد اجمر سنگھ کا کہنا ہے کہ عمار سنگھ ہندو مت کے پیروکاروں میں مقبول ہے اور لوگ اسے دیوتا کی’علامت‘کے طور پر دیکھتے ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹروں نے بچے کی پیدائش کے وقت ہی بتایا تھا کہ اس کے حمل کے ابتدائی ایام میں اس کی ریڑھ کی ہڈی میں نقص پیدا ہو گیا تھا، جس کے باعث اس کے کی کمر اور دھڑ کے درمیان پٹھوں کا مضبوط تعلق قائم نہیں ہو سکا۔ کمر پر بال اگنے کی طبی وجہ بھی یہی ہے۔
تواہم پرستی پر چوٹ:
پی کے کی مخالفت کرنے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ اسلام میں بدشگونی کا کوئی تصور نہیںہے۔اہل علم سے رجوع کریں تو متعدد حقائق کا انکشاف ہوتا ہے جنھیں سوال و جواب کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
س… عام خیال یہ ہے کہ اگر کبھی دودھ وغیرہ گر جائے یا پھر طاق اعداد مثلاً3,5,7 وغیرہ یا پھر اسی طرح دنوں کے بارے میں جن میں منگل، بدھ، ہفتہ، وغیرہ آتے ہیں، انہیں مناسب نہیں سمجھا جاتا، عام زبان میں بدشگونی کہا جاتا ہے۔ تو قرآن و حدیث کی روشنی میں بدشگونی کی کیا حیثیت ہے؟
ج… اسلام میں نحوست اور بدشگونی کا کوئی تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔ حدیث شریف میں بدشگونی کے عقیدہ کی تردید فرمائی گئی ہے۔ سب سے بڑی نحوست انسان کی اپنی بدعملیاں اور فسق و فجور ہے، جو آج مختلف طریقوں سے گھر گھر میں ہو رہا ہے۔ اِلَّا ما شاءاللہ! یہ بدعملیاں اور نافرمانیاں خدا کے قہر اور لعنت کی موجب ہیں، ان سے بچنا چاہئے۔
  انسان کی بدعملی میں ہے نحوست:
س… مذہب اسلام میں نحوست کی کیا اہمیت ہے؟ بعض لوگ پاوں پر پاوں رکھنے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ انگلیاں چٹخانے کو نحوست سمجھتے ہیں، کچھ لوگ جمائیاں لینے کو نحوست سمجھتے ہیں، کوئی کہتا ہے فلاں کام کیلئے فلاں دن منحوس ہے۔
ج… اسلام نحوست کا قائل نہیں، اس لئے کسی کام یا دن کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔ نحوست اگر ہے تو انسان کی اپنی بدعملی میں ہے، پاوں پر پاوں رکھنا جائز ہے، انگلیاں چٹخانا نامناسب ہے اور اگر جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھنے کا حکم ہے۔
لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا:
س… جن گھروں میں لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں وہاں زیادہ لوگ خوش نہیں ہوتے، بلکہ رسماً ہی خوش ہوتے ہیں، لڑکوں کی پیدائش پر بہت خوشیاں منائی جاتی ہیں، کیا یہ طریقہ صحیح ہے؟ کیونکہ لڑکی ہو یا لڑکا، یہ تو اللہ ہی کی مرض ہے، لیکن جس نے لڑکی جنی اس کو تو گویا مصیبت ہی آگئی، اور وہ ’منحوس‘ ٹھہرتی ہے، کیا ہم واپس جاہلیت کی طرف نہیں لوٹ رہے؟ جبکہ لڑکی کو دفن کردیا جاتا تھا۔
ج… لڑکوں کی پیدائش پر زیادہ خوشی تو ایک طبعی امر ہے، لیکن لڑکیوں کو یا ان کی ماں کو منحوس سمجھنا یا ان کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرنا گناہ ہے۔
عورتوں کا مختلف رنگوں کے کپڑے پہننا :
س… بعض لوگ چند رنگوں کے کپڑے اور چوڑیاں (مثلاً کالے، نیلے) رنگ کی پہننے سے منع کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فلاں رنگ کے کپڑے پہننے سے مصیبت آجاتی ہے۔ یہ کہاں تک درست ہے؟
ج… مختلف رنگ کی چوڑیاں اور کپڑے پہننا جائز ہے اور یہ خیال کہ فلاں رنگ سے مصیبت آئے گی محض توہم پرستی ہے، رنگوں سے کچھ نہیں ہوتا، اعمال سے انسان اللہ تعالیٰ کی نظر میں مقبول یا مردود ہوتا ہے۔
مہینوں کی نحوست:
س… اسلام میں نحوست منحوس وغیرہ نہیں، جبکہ ایک رقعہ ایسا تقسیم ہوا جو ماہ صفر کو منحوس قرار دے رہا ہے۔
ج… ماہِ صفر منحوس نہیں اسے توصفر المظفر اورصفر الخیر کہا جاتا ہے، یعنی کامیابی اور خیر و برکت کا مہینہ۔ ماہِ صفر کی نحوست کے بارے میں کوئی صحیح روایت نہیں، اس سلسلہ میں جو پرچے بعض لوگوں کی طرف سے شائع ہوتے ہیں، وہ بالکل غلط ہیں۔
محرم، صفر، رمضان و شعبان میں شادی کرنا:
س… بعض لوگوںکا کہنا ہے کہ چند مہینے ایسے ہیں جن میں شادی کرنا منع ہے، جیسے محرم، صفر، رمضان، شعبان وغیرہ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ان مہینوں میں شریعت نے شادی کو جائز قرار دیا ہے یا ناجائز؟ اگر ناجائز ہے تو کرنے والا کیا گناہ گار ہوگا؟
ج… شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو۔
ماہِ صفر کو منحوس سمجھنا:
س… کیا صفر کا مہینہ خصوصی طور پر ابتدائی تیرہ دن جس کو عرف میں تیرہ تیزی کہا جاتا ہے، یہ منحوس ہے؟
ج… صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا جاہلیت کی رسم ہے، مسلمان تو اس کو صفر المظفر اور صفر الخیر سمجھتے ہیں، یعنی خیر اور کامیابی کا مہینہ۔
شعبان میں شادی :
س… بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ شعبان المعظم چونکہ شب برات کا مہینہ ہے اس لئے شعبان میں نکاح جائز نہیں اور شادی بیاہ منع ہے۔
ج… قطعاً غلط اور بیہودہ خیال ہے، اسلام نے کوئی مہینہ ایسا نہیں بتایا جس میں نکاح ناجائز ہو۔
 محرم، صفر میں شادیاں :
س… محرم، صفر، شعبان میں چونکہ شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے علاوہ بڑے سانحات ہوئے، ان کے اندر شادی کرنا نامناسب ہے۔ اس لئے کہ شادی ایک خوشی کا سبب ہے اور ان سانحات کا غم تمام مسلمانوں کے دلوں میں ہوتا ہے اور مشاہدات سے ثابت ہے کہ ان مہینوں میں کی جانے والی شادیاں کسی نہ کسی سبب سے رنج و غم کا باعث بن جاتی ہیں۔ اس میں کسی عقیدے کا کیا؟
ج… ان مہینوں میں شادی نہ کرنا اس عقیدے پر مبنی ہے کہ یہ مہینہ منحوس ہے، اسلام اس نظریہ کا قائل نہیں۔ محرم میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس مہینے میں عقدِ نکاح ممنوع ہوگیا، ورنہ ہر مہینے میں کسی نہ کسی شخصیت کا وصال ہوا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی بزرگ تر تھے، اس سے یہ لازم آئے گا کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے کسی میں بھی نکاح نہ کیا جائے، پھر شہادت کے مہینے کو سوگ اور نحوست کا مہینہ سمجھنا بھی غلط ہے۔
عیدالفطر و عید الاضحی کے درمیان شادی:
س… کہا جاتا ہے کہ عیدالفطر اور عیدالاضحی کے درمیان شادی نہیں کرنی چاہئے، بلکہ بقرعید کے بعد شادی کرنی چاہئے، اگر شادی ہوجائے تو دولہا دلہن سکھ سے نہیں رہتے۔ آپ یہ بتائیں کہ یہ درست ہے یا غلط؟
ج… بالکل غلط عقیدہ ہے!

منگل، بدھ کو سرمہ لگانا:
س… میں نے سنا ہے کہ ہفتہ میں صرف پانچ دن سرمہ لگانا جائز ہے، اور دو دن لگانا جائز نہیں، مثلاً: منگل اور بدھ۔ کیا یہ صحیح ہے؟
ج… ہفتہ کے سارے دنوں میں سرمہ لگانے کی اجازت ہے، جو خیال آپ نے لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

نوروز کے تہوار:
س… 12مارچ کو ’نوروز‘ منایا جاتا ہے، کیا اسلامی نقطہ نظر سے اس کی کوئی حقیقت ہے؟ بعض اخبارات میں نوروز کی بڑی دینی اہمیت بیان کی گئی ہے، قرآن کریم کے حوالے سے اس میں بتایا گیا ہے کہ ازل سے اب تک جتنے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں وہ سب اسی روز ہوئے۔ اسی روز سورج کو روشنی ملی، اسی روز ہوا چلائی گئی، اسی روز حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لنگرانداز ہوئی، اسی روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت شکنی کی، وغیرہ وغیرہ۔ ازروئے حدیث نوروز کے اعمال بھی بتائے گئے کہ اس روز روزہ رکھنا چاہئے، نہانا چاہئے، نئے کپڑے پہننے چاہئیں، خوشبو لگانی چاہئے اور بعد نماز ظہر چار رکعت نماز نوروز دو دو رکعت کی نیت سے ادا کرنی چاہئے۔ پہلی دو رکعت کی پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس بار سورہ القدر اور دوسری رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورہ اخلاص پڑھنی چاہئے۔ دوسری دو رکعت میں سے پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الکافرون اور دوسری دو رکعت میں سورہ الحمد کے بعد دس مرتبہ سورة الناس اور دس مرتبہ سورة الفلق پڑھنی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ آخر دو رکعت کی پہلی رکعت میں ایک ہی سورت دس بار اور دوسری رکعت میں دو سورتیں دس دس بار اور وہ بھی الٹی ترتیب سے یعنی سورة الناس پہلے اور سورة الفلق بعد میں، کیا یہ درست ہے؟ چونکہ یہ باتیں قرآن و حدیث کے حوالے کے ساتھ بیان کی گئی ہیں، اس مسئلے کی وضاحت فرماکر مشکور و ممنون فرمائیں۔
ج… ہماری شریعت میں نوروز کی کوئی اہمیت نہیں، اخبارات میںاس حوالے سے جو لکھا ہے وہ صحیح نہیں۔ نوروز کی تعظیم مجوسیوں اور شیعوں کا شعار ہے۔
رات کو جھاڑو دینا:
س… سنا ہے کہ رات کو جھاڑو دینا گناہ ہے، کیا کاروباری لحاظ سے شریعت کے مطابق رات کو جھاڑو دینا اور جھاڑو سے فرش دھونا جائز ہے؟
ج… رات کو جھاڑو دینے کا گناہ میں نے کہیں نہیں پڑھا!
چپل کے اوپر چپل رکھنا :
س… بعض لوگ کہتے ہیں کہ عصر کی اذان کے تھوڑی دیر بعد جھاڑو نہیں دینی چاہئے، یعنی اس کے بعد کسی بھی وقت جھاڑو نہیں دینی چاہئے اس طرح کرنے سے مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔ چپل کے اوپر چپل نہیں رکھنی چاہئے۔جھاڑو کھڑی نہیں رکھنی چاہئے۔چارپائی پر چادر لمبائی والی جانب کھڑے ہوکر نہیں بچھانی چاہئے۔
ج… یہ ساری باتیں شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، ان کی حیثیت توہم پرستی کی ہے۔
توہم پرستی کی چند مثالیں:
س… بعض لوگوں سے سنا ہے کہ رات کے وقت چوٹی نہ کرو، جھاڑو نہ دو، ناخن نہ کاٹو، منگل کو بال اور ناخن جسم سے الگ نہ کرو، ان سب باتوں سے نیستی آتی ہے۔ کھانا کھاکر جھاڑو نہ دو، رزق اڑتا ہے۔ میری سمجھ میں یہ باتیں نہیں آتیں۔
ج… یہ محض توہمات ہیں، شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیں۔
الٹی چپل کو سیدھی کرنا:
س… ہم نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ راستے میں جو چپل الٹی پڑی ہو اسے سیدھی کردینی چاہئے، کیونکہ نعوذ باللہ اس سے اوپر لعنت جاتی ہے، کیا یہ بات صحیح ہے؟ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا الٹی چپل سیدھی کرنی چاہئے؟
ج… الٹی چیز کو سیدھا کرنا تو اچھی بات ہے، لیکن آگے آپ نے جو لکھا ہے اس کی کوئی اصل نہیں، محض لغو بات ہے۔
 فال کھلوانا :
س… کیا استخارہ لینا کسی بھی کام کرنے سے پہلے اور فال کھلوانا شرعی نقطہ نظر سے درست ہے؟
ج… سنت طریقے کے مطابق استخارہ تو مسنون ہے، حدیث میں اس کی ترغیب آئی ہے، اور فال کھلوانا ناجائز ہے۔
قرآن مجید سے فال نکالنا :
س… ہم چار بہنیں ہیں، والد چار سال پہلے انتقال کرچکے ہیں، والدہ حیات ہیں، میں سب سے چھوٹی ہوں، مجھ سے بڑی تینوں بہنیں غیرشادی شدہ ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ ہم سنی مسلم گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے کچھ دور کے رشتہ دار ہیں جو کہ قادیانیوں میں سے ہیں، ہمارا ان کے ساتھ کوئی خاص میل جول نہیں ہے۔ میرے والد کی وفات کے بعد ان لوگوں نے میری بڑی بہن کیلئے اپنے بیٹے کا رشتہ بھیجا، امی نے انکار تو نہ کیا (اقرار بھی نہ کیا)، لیکن سوچنے کیلئے کچھ وقت مانگا، میری امی کو میری نانی نے مشورہ دیا کہ قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے پوچھا جائے۔ امی نے قرآن مجید سے ابو کے بارے میں سوال پوچھا تو اس میںسورة المومنون کی 25ویں آیت کے تحت واضح طور پر جواب تھا کہ’بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرلو۔‘ سو میرا باپ مرنے تک صحیح نہ ہوسکا، قرآن میں واضح طور پر جواب مل گیا تھا اس لئے ہم سب کو پختہ یقین تھا کہ ہم کو قرآن پاک ہی صحیح مشورہ دے گا۔ اس لئے جب یہ رشتہ آیا تو امی نے بہت ہی پریشانی کے عالم میں یہ سوال پوچھا کہ’ہم مسلمان ہیں اور لڑکا غیرمسلم ماں باپ کا بیٹا ہے، اس لئے تھوڑی سی خلش ہے، کیا ہم وہاں ہاں کردیں؟‘ تو قرآن پاک میںسورة التوبہ کی 21ویں آیت کے تحت یہ جواب آیا تھا کہ’اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کیلئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی (اور) ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘ سب کو یہ جواب پڑھ کر تسلی ہوئی لیکن بعض رشتہ دار اور خود میری بہن صرف اس وجہ سے انکاری تھے کہ وہ غیرمسلم ہیں، اس لئے امی مزید پریشان ہوگئی ہیں اور بیمار پڑگئی ہیں، امی نے ایک مرتبہ پھر قرآن مجید میں پوچھا تو آپ یقین نہیں کریں گے کہ اس میںسورة التوبہ کی چالیسویں آیت کے تحت واضح طور پر یہ الفاظ تھے کہ’آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔‘ چونکہ قرآن مجید چھوٹے بڑے ہوتے ہیں اور ہمارا قرآن پاک چھوٹا ہے اس لئے صفحہ جب شروع ہوتا ہے تو یہی الفاظ جو میں نے بیان کئے ہیں الگ الگ صفحات پر درج ہیں، یہ میں آپ کو اس لئے بتارہی ہوں کہ جب آپ ان آیات کا ترجمہ پڑھیں گے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے قرآن مجید میں وہ آگے پیچھے ہوں۔آپ بھی مسلمان ہیں اور قرآن مجید کے ایک ایک حرف پر یقین رکھتے ہیں، مجھے احساس ہے کہ آپ دوسرے علماءکی طرح غیرمسلموں کو برا سمجھتے ہیں، ہم بہت پریشان ہیں، اب انکار بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ہم نے قرآن سے پوچھ لیا تو سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ سے پوچھ لیا، اور اگر ہم نے نہ کردی تو اللہ تعالیٰ نہ جانے ہمارے لئے کون سی سزائیں منتخب کرے گا؟ مجھے احساس ہے کہ آپ کا کیا جواب ہوگا لیکن بس آپ میری یہ مشکل حل کردیں۔ آیا ہم قرآن مجید سے پوچھنے کے باوجود ’نہ‘ کرسکتے ہیں جبکہ قرآن مجید میں جو الفاظ آئے ہیں وہ اوپر بیان کئے جاچکے ہیں۔
ج… آپ کے سوال میں چند امور توجہ طلب ہیں، ان کو الگ الگ لکھتا ہوں۔
اول:…قادیانی باجماع امت مرتد اور زندیق ہیں، کسی مسلمان لڑکی کا کسی کافر سے نکاح نہیں ہوسکتا، اس لئے اپنی بچی کافر کے حوالے ہرگز نہ کیجئے ورنہ ساری عمر زنا اور بدکاری کا وبال ہوگا اور اس گناہ میں آپ دونوں ماں بیٹی بھی شریک ہوں گی۔
دوم:…قرآن مجید سے فال دیکھنا حرام اور گناہ ہے، اور اس فال کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھنا نادانی ہے، کیونکہ قرآن مجید کے صفحے مختلف ہوسکتے ہیں، ایک شخص فال کھولے گا تو کوئی آیت نکلے گی اور دوسرا کھولے گا تو دوسری آیت نکلے گی۔ جو مضمون میں پہلی آیت سے مختلف ہوگی، پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم سے فال نکال کر کسی شخص نے کوئی کام کیا اور اس کا انجام اچھا نہ نکلا تو قرآن کریم سے بدعقیدگی پیدا ہوگی، جس کا نتیجہ کفر تک نکل سکتا ہے۔ بہرحال علمائے امت نے اس کو ناجائز اور گناہ فرمایا ہے، چنانچہ مفتی کفایت اللہ کے مجموعہ فتاویٰ ’کفایة المفتی‘ میں ہے:
س:…ایک لڑکی کے کچھ زیوارت کسی نے اتار لئے، لوگوں کا خیال ایک شخص کی طرف گیا اور فال کلام مجید سے نکالی گئی اور اسی شخص کا نام نکلا جس کی طرف خیال گیا تھا، اس کو جب معلوم ہوا تو اس نے مسجد میں جاکر قرآن مجید کے چند ورق پھاڑ لئے اور ان پر پیشاب کردیا۔ (نعوذ باللہ!) اور کہنے لگا کہ قرآن مجید بھی جھوٹا اور مولوی بھی سالا جھوٹا۔ آیا یہ شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور ہوسکتا ہے تو کیسے؟
ج:…شریعت میں فال نکالنا منع ہے، اور اس کے منع ہونے کی دو وجہیں ہیں۔ اول تو یہ کہ علم غیب خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا، ممکن ہے کہ نام غلط نکلے اور پھر جس کا نام نکلے خدانخواستہ کہیں وہ ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جیسے اس شخص نے کی۔ شریعت کے احکام کی خلاف ورزی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے جو آپ نے دیکھا۔ جس شخص نے کلام مجید او رمولویوں کے ساتھ ایسی گستاخیاں کی ہیں وہ کافر ہے، لیکن نہ ایسا کافر کہ کبھی اسلام میں داخل نہ ہوسکے، بلکہ جدید توبہ سے وہ اسلام میں داخل ہوسکتا ہے۔ آئندہ فال نکالنے سے احتراز چاہئے تاکہ فال نکال کر نام نکالنے والے شخص کی طرح خود بھی اور جس کا نام نکلا تھا اسے بھی گناہ گار نہ کریں۔ اس شخص سے توبہ کرانے کے بعد اس کی بیوی سے تجدیدِ نکاح لازم ہے۔بحوالہ کفایت المفتی ج:9ص:129
ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
ج:…قرآن مجید سے فال نکالنی ناجائز ہے، فال نکالنی اور اس پر عقیدہ کرنا کسی اور کتاب (مثلاً دیوانِ حافظ یا گلستان وغیرہ) سے بھی ناجائز ہے، مگر قرآن مجید سے نکالنی تو سخت گناہ ہے کہ اس سے بسااوقات قرآن مجید کی توہین یا اس کی جانب سے بدعقیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔‘کسی کو شک ہوتو وہ کفایة المفتی ج:9 ص:221سے رجوع کرلے۔
اسی کتاب کے صفحہ 223پرایک اور جگہ مفتی صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’چور کا نام نکالنے کیلئے قرآن مجید سے فال لینا ناجائز ہے اور اس کو یہ سمجھنا کہ یہ قرآن مجید کو ماننا یا نہ ماننا ہے، غلط ہے۔ اس لئے حافظ صاحب کا یہ کہنا کہ: تم قرآن مجید کو مانتے ہو تو زید کے دس روپے دے دو کیونکہ قرآن مجید نے تمہیں چور بتایا ہے۔ یہ بھی صحیح نہیں تھا۔‘
پس آپ کا اور آپ کی والدہ کا اس ناجائز فعل کو حجت سمجھنا قطعاً غلط اور گناہ ہے، اس سے توبہ کرنی چاہئے۔
سوم:…آپ کی والدہ نے آپ کے والد صاحب کے بارے میں سورة المومنون کی آیت نمبر:25 کی جو یہ فال نکالی تھی:
’بس یہ ایک آدمی ہے جس کو جنون ہوگیا ہے، سو ایک خاص وقت (یعنی اس کے مرنے کے وقت) تک اس کی حالت کا انتظار کرو۔‘
قرآن مجید کھول کر اس سے آگے پیچھے پڑھ لیجئے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافروں کا قول نقل کیا ہے جو وہ حضرت نوح علیہ السلام کے بارے میں کہا کرتے تھے۔ اب اگر یہ قول صحیح ہے تو آپ کے والد صاحب کی مثال نوح علیہ السلام کی ہوئی اور آپ کی والدہ کی مثال قومِ نوح کے کافروں کی ہوئی، کیا آپ اور آپ کی والدہ اس مثال کو اپنے لئے پسند کریں گے؟ فرمانِ خدا (جس کا آپ حوالہ دے رہی ہیں) تو یہ ہے کہ اس فقرہ کے کہنے والے کافر ہیں اور جس شخص کے بارے میں یہ فقرہ کہا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا مقبول بندہ ہے۔ میں تو قرآن کریم کے لفظ لفظ پر ایمان رکھتا ہوں، کیا آپ بھی اس فرمانِ خدا پر ایمان رکھیں گے؟
چہارم:…اب کافر لڑکے کے بارے میں آپ کی والدہ نے سورہ توبہ سے جو فال نکالی اس کو دیکھئے! اس سے اوپر کی آیت میں ان اہل ایمان کا ذکر ہے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور اپنی جانوں اور مالوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کیا، چنانچہ ارشاد ہے: “جو لوگ ایمان لائے اور (اللہ کے واسطے) انہوں نے ترکِ وطن کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کیا۔‘ انہی کے بارے میں فرمایا ہے:
’ان کارب ان کو بشارت دیتا ہے، اپنی طرف سے بڑی رحمت اور بڑی رضامندی اور (جنت کے) ایسے باغوں کی، کہ ان کیلئے ان (باغوں) میں دائمی نعمت ہوگی اور ان میں ہمیشہ ہمیشہ کو رہیں گے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کے پاس بڑا اجر ہے۔‘
کیا دنیا کا کوئی عقل مند ان آیات کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے کامل اہل ایمان اور مہاجرین و مجاہدین کے بارے میں نازل ہوئیں، فال کھول کر فاسقوں، بدکاروں اور کافروں، مرتدوں پر چسپاں کرنے لگے گا اور اس کو فرمانِ الٰہی سمجھ کر لوگوں کے سامنے کرے گا؟ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے:
’اے ایمان والو! اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو (اپنا) رفیق مت بناو?، اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے (ایسا) عزیز رکھیں (کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا، سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔بحوالہ التوبہ:23
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو حکم دیا گیا ہے کہ جو کافر، کفر کو ایمان پر ترجیح دیتے ہیں، خواہ وہ تمہارے کیسے ہی عزیز ہوں، خواہ باپ، بھائی اور بیٹے ہی کیوں نہ ہوں، ان کو اپنا دوست و رفیق نہ بناو اور ان سے محبت و مودت کا کوئی رشتہ نہ رکھو اور تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ جو شخص ایسا کرے گا اس کا نام ظالموں اور خدا کے نافرمانوں میں لکھا جائے گا۔ اب بتائیے کہ جن قادیانی مرتدوں نے ایمان پر کفر کو ترجیح دے رکھی ہے، اور جنہوں نے قادیان کے غلام احمد کو (نعوذ باللہ) محمد رسول اللہ‘ بنا رکھا ہے، ایسے کافروں کو اپنی بیٹی اور بہن دے کر آپ کس زمرے میں شمار ہوں گی؟ اللہ تعالیٰ تو ایسے لوگوں کا نام ظالم رکھتا ہے، آپ اپنے لئے کون سا نام پسند کریں گی؟
پنجم:…آپ کی امی نے تیسری فال قادیانیوں کے کافر قرار دئیے جانے پر نکالی اور اس میں یہ الفاظ نکلے:
’آپ کی مدد اس وقت کرچکا ہے۔‘
ذرا اس پوری آیت کو پڑھ کر دیکھئے کہ یہ کس کے بارے میں ہے؟ یہ آیت مقدسہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے، مکہ کے کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال دیا تھا اس کا حوالہ دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو فرماتے ہیں:
’اگر تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کروگے تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اس وقت کرچکا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافروں نے جلاوطن کردیا تھا، جبکہ دو آدمیوں میں ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، جس وقت کہ دونوں غار میں تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہی سے فرما رہے تھے کہ تم کچھ غم نہ کرو، یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ہمراہ ہے۔‘
مکہ سے نکالنے والے مکہ کے کافر تھے، اور جن کو نکالا گیا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے یارِ غار حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کی امی فال کے ذریعہ قادیانیوں پر اس آیت کو چسپاں کرکے قادیانیوں کو نعوذ باللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مماثل بنا رہی ہیں اور تمام امت مسلمہ کو، جس نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہے، مکہ کے کافر بنارہی ہیں، یہ ہیں آپ کی امی کی کھولی ہوئی فال کے کرشمے اور لطف یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کے معنی و مفہوم سے بے خبر ہونے کی وجہ سے ان کرشموں کو خدا کا فرمان بتارہی ہیں۔ خدا کیلئے ان باتوں سے توبہ کیجئے، اور اپنا ایمان برباد نہ کیجئے۔ اس قادیانی مرتد کو ہرگز لڑکی نہ دیجئے کیونکہ میں اوپر فرمانِ خداوندی نقل کرچکا ہوں کہ ایسے کافروں سے دوستی اور رشتہ ناطہ کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے ظالم اور نافرمان ٹھہرایا ہے۔ اگر آپ نے اس فرمانِ الٰہی کی پروا نہ کی اور لڑکی قادیانی مرتد کو دے دی، تو اس ظلم کی ایسی سزا دنیا و آخرت میں ملے گی کہ تمہاری آئندہ نسلیں بھی اسے یاد رکھیں گی!
دست شناسی اور اسلام:
س… اسلام کی رو سے دست شناسی جائز ہے یا نہیں؟ اس کا سیکھنا اور ہاتھ دیکھ کر مستقبل کا حال بتانا جائز ہے یا نہیں؟
ج… ان چیزوں پر اعتماد کرنا جائز نہیں۔
دست شناسی کی کمائی:
س… علم نجوم پر لکھی ہوئی کتابیں (پامسٹری) وغیرہ پڑھ کر لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر حالات بتانا یعنی پیش گوئیاں کرنا اور اس پیشہ سے کمائی کرنا ایک مسلمان کیلئے جائز ہے؟
ج… جائز نہیں۔
ستاروں کا علم:
س… کیا ستاروں کے علم کو درست اور صحیح سمجھا جاسکتا ہے؟ اور کیا اس پر یقین کرنے سے ایمان پر کوئی فرق تو نہیں پڑتا؟
ج… ستاروں کا علم یقینی نہیں اور پھر ستارے بذاتِ خود مو?ثر بھی نہیں، اس لئے اس پر یقین کرنے کی ممانعت ہے۔
نجوم پر اعتقاد :
س… میں نے اپنے لڑکے کی شادی کا پیغام ایک عزیز کے ہاں دیا، انہوں نے کچھ دن بعد جواب دیا کہ میں نے علم الاعداد اور ستاروں کا حساب نکلوایا ہے، میں مجبور ہوں کہ بچوں کے ستارے آپس میں نہیں ملتے، اس لئے میری طرف سے انکار سمجھیں۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ از روئے شرع ان کا یہ فعل کہاں تک درست ہے؟
ج… نجوم پر اعتقاد کفر ہے۔
اہل نجوم پر اعتماد :
س… اکثر اہل نجوم کہتے ہیں کہ سال میں ایک دن، ایک مقررہ وقت ایسا آتا ہے کہ اس مقررہ وقت میں جو دعا بھی مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے۔ اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ اس مقررہ وقت میں ان پڑھ لوگوں کی اکثریت دعائیں مانگنے میں مصروف رہتی ہے۔ مہربانی فرماکر بتائیے کہ کیا دعائیں صرف ایک مقررہ وقت میں اور وہ بھی سال میں ایک دن قبول ہوتی ہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سال کے باقی دنوں میں دعائیں نہ مانگی جائیں؟
ج… اسلام کے نقطہ نظر سے تو چوبیس گھنٹے میں ایک وقت (جس کی تعیین نہیں کی گئی) ایسا آتا ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ باقی نجوم پر مجھے نہ عقیدہ ہے، نہ عقیدہ رکھنے کو صحیح سمجھتا ہوں۔
برجوں اور ستاروں میں تاثیر :
س… اپنی قسمت کا حال دریافت کرنا یا اخبارات وغیرہ میں جو کیفیات یا حالات درج کئے جاتے ہیں کہ فلاں برج والے کے ساتھ یہ ہوگا وہ ہوگا، پڑھنا یا معلوم کرنا درست ہے؟ اور اس بات پر یقین رکھنا کہ فلاں تاریخ کو پیدا ہونے والے کا برج فلاں ہے، گناہ ہے؟
ج… اہل اسلام کے نزدیک نہ تو کوئی شخص کسی کی قسمت کا صحیح صحیح حال بتاسکتا ہے، نہ برجوں اور ستاروں میں کوئی ذاتی ت?ثیر ہے۔ ان باتوں پر یقین کرنا گناہ ہے اور ایسے لوگ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں اور توہم پرست بن جاتے ہیں۔
نجومی کو ہاتھ دکھانا:
س… ہمیں ہاتھ دکھانے کا بہت شوق ہے، ہر دیکھنے والے کو دکھاتے ہیں۔ بتائیے کہ یہ باتیں ماننی چاہئیں یا نہیں؟
ج… ہاتھ دکھانے کا شوق بڑا غلط ہے، اور ایک بے مقصد کام بھی، اور اس کا گناہ بھی بہت بڑا ہے۔ جس شخص کو اس کی لت پڑجائے وہ ہمیشہ پریشان رہے گا اور ان لوگوں کی انٹ شنٹ باتوں میں الجھا رہے گا۔
جو منجم سے مستقبل کا حال پوچھے، اس کی چالیس دن کی نمازقبول نہیں ہوتی۔
س… میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ستاروں کے علم پڑھنے سے یعنی جس طرح اخبارات اور رسالوں میں دیا ہوا ہوتا ہے کہ’یہ ہفتہ آپ کا کیسا رہے گا؟‘پڑھنے سے خدا تعالیٰ اس شخص کی چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا۔ جب میں نے یہ بات اپنے ایک عزیز دوست کو بتائی تو وہ کہنے لگا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کہ خداوند تعالیٰ چالیس دن تک دعا قبول نہیں کرتا، ویسے ستاروں کے علم پر تو میں یقین نہیں رکھتا کیونکہ ایسی باتوں پر یقین رکھنے سے ایمان پر دیمک لگ جاتی ہے۔ تو اس سلسلہ میں بتائیے کہ کس کا نظریہ درست ہے؟
ج… اس سوال کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ’جو شخص کسی’عراف‘ کے پاس گیا، پس اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔بحوالہ صحیح مسلم ج:2ص:233
ستاروں کے ذریعہ فال نکالنا:
س… ایک لڑکے کا رشتہ طے ہوا، لڑکی والوں نے تمام معلومات بھی کرلیں کہ لڑکا ٹھیک ٹھاک اور نیک ہے۔ پھر لڑکی والوں نے کہا کہ ہم تین دن بعد جواب دیں گے۔ ان کے گھرانے کے کوئی بزرگ ہیں جو امام مسجد بھی ہیں اور لڑکی والے ہر کام ان کے مشورے سے کرتے ہیں۔ جمعرات کے دن رات کو امام صاحب نے کوئی وظیفہ کیا اور جمعہ کو لڑکی والوں کو کہا کہ اس لڑکے اور لڑکی کا ستارہ آپس میں نہیں ملتا، یہاں شادی نہ کی جائے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب سے آگاہ فرمائیں۔
ج… اسلام ستارہ شناسی کا قائل نہیں، نہ اس پر یقین رکھتا ہے۔ بلکہ حدیث میں اس پر بہت سخت مذمت آئی ہے۔ وہ بزرگ اگر نیک اور باشرع ہیں تو ان کو استخارہ کے ذریعہ معلوم ہوا ہوگا، جو یقینی اور قطعی نہیں، اور اگر وہ کسی عمل کے ذریعہ معلوم کرتے ہیں تو یہ جائز نہیں۔
علم الاعداد پر یقین :
س… علم الاعداد اور علمِ نجوم میں بڑا فرق ہوتا ہے، اس علم میں یہ ہوتا ہے کہ مذکورہ شخص کے نام کو بحساب ابجد ایک عدد کی صورت میں سامنے لایا جاتا ہے، اور پھر جب ’عدد‘ سامنے آجاتا ہے تو علم الاعداد کا جاننے والا اس شخص کو اس کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ کرسکتا ہے۔ ویسے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر اس علم کو محض علم جاننے تک لیا جائے اور اگر اس میں کچھ غلط باتیں لکھی ہوں تو ان پر یقین نہ کیا جائے تو کیا یہ گناہ ہی ہوگا؟
ج… علمِ نجوم اور علم الاعداد میں مآل اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ وہاں ستاروں کی گردش اور ان کے اوضاع (اجتماع و افتراق) سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے، اور یہاں بحساب جمل اعداد نکال کر ان اعداد سے قسمت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ گویا علم نجوم میں ستاروں کو انسانی قسمت پر اثرانداز سمجھا جاتا ہے، اور علم الاعداد میں نام کے اعداد کی تاثیرات کے نظریہ پر ایمان رکھا جاتا ہے۔ اول تو یہ کہ ان چیزوں کو موثر حقیقی سمجھنا ہی کفر ہے، علاوہ ازیں محض اٹکل پچو اتفاقی امور کو قطعی و یقینی سمجھنا بھی غلط ہے، لہٰذا اس علم پر یقین رکھنا گناہ ہے، اگر فرض کیجئے کہ اس سے اعتقاد کی خرابی کا اندیشہ نہ ہو، نہ اس سے کسی مسلمان کو ضرر پہنچے، نہ اس کو یقینی اور قطعی سمجھا جائے تب بھی زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا سیکھنا گناہ نہیں، مگر ان شرائط کے باوجود اس کے فعلِ عبث ہونے میں تو کوئی شبہ نہیں۔ ان چیزوں کی طرف توجہ کرنے سے آدمی دین و دنیا کی ضروری چیزوں پر توجہ نہیں دے سکتا۔
ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا :
س… قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا چاہئے یا نہیں؟
ج… قرآن و حدیث کی روشنی میں ہاتھ کی لکیروں پر یقین رکھنا درست نہیں۔
الو کا بولنا اور نحوست:
س… اگر کسی مکان کی چھت پر الو بیٹھ جائے یا کوئی شخص الو دیکھ لے تو اس پر تباہیاں اور مصیبتیں آنا شروع ہوجاتی ہیں، کیونکہ یہ ایک منحوس جانور ہے۔ اس کے برعکس مغرب کے لوگ اسے گھروں میں پالتے ہیں۔ مہربانی فرماکر یہ بتائیں کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج… نحوست کا تصور اسلام میں نہیں ہے، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ الّو ویرانہ چاہتا ہے، جب کوئی قوم یا فرد اپنی بدعملیوں کے سبب اس کا مستحق ہو کہ اس پر تباہی نازل ہو تو الّو کا بولنا اس کی علامت ہوسکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ الّو کا بولنا تباہی و مصیبت کا سبب نہیں بلکہ انسان کی بدعملیاں اس کا سبب ہیں۔
شادی پر دروازے میں تیل ڈالنے کی رسم:
س… شادی بیاہ کے معاملوں میں ہمارے توہم پرست لوگ حد سے زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ شادی والے دن جب دولہا میاں دلہن کو لے کر گھر آتا ہے تو دولہا اور دلہن اس وقت تک گھر کے دروازے کے اندر نہیں آسکتے جب تک گھر کے دروازے کے دونوں طرف تیل نہ پھینک دیا جائے، بعد ازاں دلہن اس وقت تک کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاسکتی جب تک ایک خاص قسم کا کھانا جس میں بہت سی اجناس شامل ہوتی ہیں پکا نہیں لیتی۔ میرے خیال میں یہ سراسر توہم پرستی اور فضول رسمیں ہیں، کیونکہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہمیں ایسے کسی رسم و رواج کا پتہ نہیں ملتا۔ برائے مہربانی آپ شریعت کی رو سے بتائیں کہ اسلامی معاشرے میں ایسی رسوم کی کیا حیثیت ہے؟
ج… آپ نے جن رسموں کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہ توہم پرستی ہے، غالباً یہ اور اس قسم کی دوسری رسمیں ہندو معاشرہ سے لی گئی ہیں۔
 بچے کے سیاہ دھاگا باندھنا:
س… بچے کی پیدائش پر مائیں اپنے بچوں کو نظرِ بد سے بچانے کیلئے اس کے گلے یا ہاتھ کی کلائی میں کالے رنگ کی ڈوری باندھ دیتی ہیں، یا بچے کے سینے یا سر پر کاجل سے سیاہ رنگ کا نشان لگادیا جاتا ہے تاکہ بچے کو بری نظر نہ لگے۔ کیا یہ فعل درست ہے؟
ج… محض توہم پرستی ہے۔
غروبِ آفتاب کے فوراً بعد بتی جلانا:
س… بعد غروبِ آفتاب فوراً بتی یا چراغ جلانا ضروری ہے یا نہیں؟ اگرچہ کچھ کچھ اجالا رہتا ہی ہو۔ بعض لوگ بغیر بتی جلائے مغرب کی نماز پڑھنا درست نہیں سمجھتے، اس سلسلے میں شرعی حکم کیا ہے؟
ج… یہ توہم پرستی ہے، اس کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے۔
منگل اور جمعہ کے دن کپڑے دھونا:
س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جمعہ اور منگل کو کپڑے نہیں دھونا چاہئے۔ ایسا کرنے سے رزق (آمدنی) میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔
ج… بالکل غلط! توہم پرستی ہے۔
ہاتھ دکھاکر قسمت معلوم کرنا:
س… ہاتھ دکھا کر جو لوگ باتیں بتاتے ہیں، وہ کہاں تک صحیح ہوتی ہیں؟ اور کیا ان پر یقین کرنا چاہئے؟
ج… ایسے لوگوں کے پاس جانا گناہ اور ان کی باتوں پر یقین کرنا کفر ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایاکہ’جو شخص کسی پنڈت نجومی یا قیافہ شناس کے پاس گیا اور اس سے کوئی بات دریافت کی تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔‘مسند احمد اور ابوداود کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین شخصوں کے بارے میں فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ دین سے بری ہیں۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو کسی کاہن کے پاس جائے اور اس کی بات کی تصدیق کرے۔
آنکھوں کا پھڑکنا:
س… میں نے سنا ہے کہ سیدھی آنکھ پھڑکے تو کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے اور بائیں پھڑکے تو خوشی حاصل ہوتی ہے۔ آپ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کا جواب دیں۔
ج… قرآن و حدیث میں اس کاکوئی ثبوت نہیں، محض بے اصل بات ہے۔
عصر و مغرب کے درمیان کھانا کھانا:
س… کیا عصر کی نماز سے مغرب کی نماز کے دوران کھانا نہیں کھانا چاہئے؟ کیونکہ میں نے سنا ہے کہ اس وقت مردے کھانا کھاتے ہیں۔
ج… عصر و مغرب کے درمیان کھانا پینا جائز ہے، اور اس وقت مردوں کا کھانا جو آپ نے لکھا ہے وہ فضول بات ہے۔
توہم پرستی کی باتیں:
س… عام طور پر ہمارے گھروں میں یہ توہم پرستی ہے اگر دیوار پر کوّا آکر بیٹھے تو کوئی آنے والا ہوتا ہے۔ پاوں پر جھاڑو لگنا یا لگانا برا فعل ہے، شام کے وقت جھاڑو دینے سے گھر کی نیکیاں بھی چلی جاتی ہیں، دودھ گرنا بری بات ہے، کیونکہ دودھ پوت (بیٹے) سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
مثال:…ایک عورت بیٹھی ہوئی اپنے بچے کو دودھ پلا رہی ہے، قریب ہی دودھ چولہے یا انگیٹھی پر گرم ہو رہا ہے، اگر وہ ابل کر گرنے لگے تو بیٹے کو دور پھینک دے گی اور پہلے دودھ کو بچائے گی۔
اگر کوئی اتفاق سے کنگھی کرکے اس میں جو بال لگ جاتے ہیں، وہ گھر میں کسی ایک کونے میں ڈال دے اور پھر کسی خاتون کی اس پر نظر پڑجائے تو وہ کہے گی کہ کسی نے ہم پر جادو ٹونہ کرایا ہے۔
ایسی ہی ہزاروں توہم پرستیاں ہمارے معاشرے میں داخل ہوچکی ہیں۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے آباءو اجداد قدیم زمانے سے ہندووں اور سکھوں کے ساتھ رہے ہیں، ان ہی کی رسومات بھی ہمارے ماحول میں داخل ہوگئی ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی اصلاح فرمائیں۔

ج… ہمارے دین میں توہم پرستی اور بدشگونی کی کوئی گنجائش نہیں۔ آپ نے جتنی مثالیں لکھی ہیں یہ سب غلط ہیں۔ البتہ دودھ خدا کی نعمت ہے، اس کو ضائع ہونے سے بچانا اور اس کیلئے جلدی سے دوڑنا بالکل درست ہے، عورت کے سر کے بالوں کا حکم یہ ہے کہ ان کو پھینکا نہ جائے تاکہ کسی نامحرم کی نظر ان پر نہ پڑے، باقی یہ بھی صحیح ہے کہ بعض لوگ عورت کے بالوں کے ذریعہ جادو کرتے ہیں، مگر ہر ایک کے بارے میں یہ بدگمانی کرنا بالکل غلط ہے۔
جائے نماز کا کونا الٹنا:
س… شیطان مسلمانوں کو عبادت سے روکنے کیلئے وسوسوں کے ذریعے بہکاتا ہے اور خود عبادت کرتا ہے، اس کو عبادت سے روکنے کیلئے ہم نماز کے بعد جائے نماز کا کونا الٹ دیتے ہیں، اس طرح عبادت سے روک دینے کے عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج… اس سوال میں آپ کو دو غلط فہمیاں ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ شیطان دوسروں کو عبادت سے روکتا ہے مگر خود عبادت کرتا ہے۔ شیطان کا عبادت کرنا غلط ہے، عبادت تو حکمِ الٰہی بجالانے کا نام ہے، جبکہ شیطان حکمِ الٰہی کا سب سے بڑا نافرمان ہے، اس لئے یہ خیال کہ شیطان عبادت کرتا ہے بالکل غلط ہے۔
دوسری غلط فہمی یہ کہ مصلیٰ کا کونا ا لٹنا شیطان کو عبادت سے روکنے کیلئے ہے، یہ قطعاً غلط ہے۔ مصلیٰ کا کونا الٹنے کا رواج تو اس لئے ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلاضرورت جائے نماز بچھی نہ رہے اور وہ خراب نہ ہو۔ عوام جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر جائے نماز نہ الٹی جائے تو شیطان نماز پڑھتا ہے، یہ بالکل مہمل اور لایعنی بات ہے۔
نقصان ہونے پر کہنا کہ کوئی منحوس صبح ملا ہوگا:
س… جب کسی شخص کو کسی کام میں نقصان ہوتا ہے یا کسی مقصد میں ناکامی ہوتی ہے تو وہ یہ جملہ کہتا ہے کہ’آج صبح سویرے نہ جانے کس منحوس کی شکل دیکھی تھی۔‘جبکہ انسان صبح سویرے بستر پر آنکھ کھلنے کے بعد سب سے پہلے اپنے ہی گھر کے کسی فرد کی شکل دیکھتا ہے، تو کیا گھر کا کوئی آدمی اس قدر منحوس ہوسکتا ہے کہ صرف اس کی شکل دیکھ لینے سے سارا دن نحوست میں گزرتا ہے؟
ج… اسلام میں نحوست کا تصور نہیں، یہ محض توہم پرستی ہے۔
الٹے دانت نکلنے پر بدشگونی :
س… بچے کے دانت اگر الٹے نکلتے ہیں تولوگ کہتے ہیں کہ ننھیال یا مامووں پر بھاری پڑتے ہیں۔ اس کی کیا اصل ہے؟
ج… اس کی کوئی اصل نہیں! محض توہم پرستی ہے۔
چاند گرہن یا سورج گرہن :
س… میں نے سنا ہے کہ جب چاند گرہن یا سورج گرہن ہوتا ہے تو ان کو اذیت پہنچتی ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
ج… درست نہیں! محض غلط خیال ہے۔
عورت کا روٹی پکاتے ہوئے کھالینا:
س… میری امی کہتی ہیں کہ جب عورت روٹی پکاتی ہے تو اسے حکم ہے کہ تمام روٹیاں پکاکر ہاتھ سے لگا ہوا آٹا اتار کر روٹی کھائے، عورت کو جائز نہیں کہ وہ روٹیاں پکاتے پکاتے کھانے لگے، یعنی آدھی روٹیاں پکائیں اور کھانا شروع کردیا، تو ایسا کرنے والی عورت جنت میں داخل نہ ہوسکے گی۔ آپ بتائیے کہ کیا یہ بات صحیح ہے؟
ج… آپ کی امی کی نصیحت تو ٹھیک ہے، مگر مسئلہ غلط ہے۔ عورت کو روٹی پکانے کے دوران بھی کھانا کھالینا شرعاً جائز ہے۔
جمعہ کے دن کپڑے دھونا:
س… میں نے سنا ہے کہ جمعہ اور منگل کے دن کپڑے دھونا نہیں چاہئے، اور بہت سے لوگ جمعہ کے دن نماز ہوجانے کے بعد کپڑے دھوتے ہیں، اور کہاں تک یہ طریقہ درست ہے؟ اور اس طرح بہت سے لوگ جو پردیس میں ہوتے ہیں اور ان کی جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے تو وہ لوگ کپڑے دھوتے ہیں اس لئے کہ جمعہ کے علاوہ ان کو ٹائم نہیں ملتا۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ وہ لوگ جمعہ اور منگل کو کپڑے دھونے کی اجازت دیتے ہیں جو لوگ نماز پڑھتے ہیں کیا قرآن پاک میں اس کا ذکر ہے یا نہیں؟
ج… جمعہ اور منگل کے دن کپڑے نہ دھونے کی بات بالکل غلط ہے۔
عصر اور مغرب کے دوران کھانا پینا:
س… اکثر لوگ کہتے ہیں کہ عصر اور مغرب کے درمیان کچھ کھانا پینا نہیں چاہئے کیونکہ نزع کے وقت انسان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عصر و مغرب کا درمیانہ وقت ہے اور شیطان شراب کا پیالہ پینے کو دے گا تو جن لوگوں کو عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے کی عادت ہوگی وہ شراب کا پیالہ پی لیں گے اور جن کو عادت نہ ہوگی وہ شراب پینے سے پرہیز کریں گے (نیز اس وقفہ عصر و مغرب کے درمیان کچھ نہ کھانے پینے سے روزے کا ثواب ملتا ہے)۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب قرآن و سنت کی روشنی میں دے کر ایک الجھن سے نجات دلائیں۔
ج… یہ دونوں باتیں غلط ہیں! عصر و مغرب کے درمیان کھانے پینے میں کوئی کراہت نہیں۔
کٹے ہوئے ناخن کا پاوں کے نیچے آنا، پتلیوں کا پھڑکنا، کالی بلی کا راستہ کاٹنا:

س… 1:  سنا ہے کہ اگر کاٹا ہوا ناخن کسی کے پاوں کے نیچے آجائے تو وہ شخص اس شخص کا (جس نے ناخن کاٹا ہے) دشمن بن جاتا ہے؟
2:…جناب کیا پتلیوں کا پھڑکنا کسی خوشی یا غمی کا سبب بنتا ہے؟
3:…اگر کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو کیا آگے جانا خطرے کا باعث بن جائے گا؟

ج… یہ تینوں باتیں محض توہم پرستی کی مد میں آتی ہیں، شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
زمین پر گرم پانی ڈالنا:
س… زمین پر گرم پانی وغیرہ گرانا منع ہے یا نہیں؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ گناہ ہے، زمین کو تکلیف ہوتی ہے۔
ج… محض غلط خیال ہے!
نمک زمین پر گرنے سے کچھ نہیں ہوتا لیکن قصداً گرانا برا ہے۔
س… کیا نمک اگر زمین پر گر جائے (یعنی پیروں کے نیچے آئے) تو روزِ قیامت پلکوں سے اٹھانا پڑے گا؟
ج… نمک بھی خدا کی نعمت ہے، اس کو زمین پر نہیں گرانا چاہئے، لیکن جو سزا آپ نے لکھی ہے وہ قطعاً غلط ہے۔
پتھروں کا انسان کی زندگی پر اثرانداز ہونا:
س… ہم جو انگوٹھی وغیرہ پہنتے ہیں اور اس میں اپنے نام کے ستارے کے حساب سے پتھر لگواتے ہیں، مثال کے طور پر عقیق، فیروزہ، وغیرہ وغیرہ، کیا یہ اسلام کی رو سے جائز ہے؟ اور کیا کوئی پتھر کا پہننا بھی سنت ہے؟
ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، انسان کے اعمال اثرانداز ہوتے ہیں۔

فیروزہ پتھر:
س… لعل، یاقوت، زمرد، عقیق اور سب سے بڑھ کر فیروزہ کے نگ کو انگوٹھی میں پہننے سے کیا حالات میں تبدیلی رونما ہوتی ہے؟ اور اس کا پہننا اور اس پر یقین رکھنا جائز ہے؟
ج… پتھروں کو کامیابی و ناکامی میں کوئی دخل نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کا نام فیروز تھا، اس کے نام کو عام کرنے کیلئے سبائیوں نے ’فیروزہ‘ کو متبرک پتھر کی حیثیت سے پیش کیا۔ پتھروں کے بارے میں نحس و سعد کا تصور سبائی افکار کا شاخسانہ ہے۔
پتھروں کی اصلیت:
س… میری خالہ جان چاندی کی انگوٹھی میں فیروزہ کا پتھر پہننا چاہتی ہیں، آپ برائے مہربانی ذرا پتھروں کی اصلیت کے بارے میں وضاحت کریں۔ ان کا واقعی کوئی فائدہ ہوتا ہے یا یہ سب داستانیں ہیں؟ اگر ان کا وجود ہے تو فیرزہ پتھر کس وقت؟ کس دن؟ اور کس دھات میں پہننا مبارک ہے؟
ج… پتھروں سے آدمی مبارک نہیں ہوتا، انسان کے اعمال اس کو مبارک یا ملعون بناتے ہیں۔ پتھروں کو مبارک و نامبارک سمجھنا عقیدے کا فساد ہے جس سے توبہ کرنی چاہئے۔
پتھروں کے اثرات کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟
س… اکثر لوگ مختلف ناموں کے پتھروں کی انگوٹھیاں ڈالتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ فلاں پتھر میری زندگی پر اچھے اثرات ڈالتا ہے اور ساتھ ساتھ ان پتھروں کو اپنے حالات اچھے اور برے کرنے پر یقین رکھتے ہیں، بتائیں کہ شرعی لحاظ سے ان پتھروں پر ایسا یقین رکھنا اور سونے میں ڈالنا کیسا ہے؟
ج… پتھر انسان کی زندگی پر اثرانداز نہیں ہوتے، اس کے نیک یا بدعمل اس کی زندگی کے بننے یا بگڑنے کے ذمہ دار ہیں، پتھروں کو اثرانداز سمجھنا مشرک قوموں کا عقیدہ ہے، مسلمانوں کا نہیں اور سونے کی انگوٹھی مردوں کو حرام ہے۔

استخارہ سنت کے مطابق کیجیے Istikhara Sunnat k Mutabiq keejiye

از: محمد عمر انور ، استاذ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن کراچی

خیر اور بھلائی طلب کرنا
استخارہ کا مطلب ہے کسی معاملے میں خیراور بھلائی کا طلب کرنا،یعنی روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے اپنے ہرجائز کام میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا اور اللہ سے اس کام میں خیر، بھلائی اور رہنمائی طلب کرنا ،استخارہ کے عمل کو یہ سمجھنا کہ اس سے کوئی خبر مل جاتی ہے تویہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جس کی وجہ سے کئی غلط فہمیوں نے جنم لیا جن کا تفصیل سے تذکرہ آگے آرہا ہے، استخارہ ایک مسنون عمل ہے، جس کا طریقہ اور دعا نبی صلى الله عليه وسلم سے احادیث میں منقول ہے ،حضور اکرم صلى الله عليه وسلم حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ہرکام سے پہلے اہمیت کے ساتھ استخارے کی تعلیم دیا کرتے تھے، حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے حضرت جابر بن عبد اللہ رضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
اذا ھم احدکم بالامر فلیرکع رکعتین من غیر الفریضة (بخاری)
ترجمہ :جب تم میں سے کوئی شخص کسی بھی کام کا ارادہ کرے تو اس کو چاہیے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے ۔
استخارہ حدیث نبوی کی روشنی میں
۱- عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا کما یعلمنا سورة من القرآن (ترمذی )
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کو تمام کاموں میں استخارہ اتنی اہمیت سے سکھاتے تھے جیسے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دیتے تھے ۔
استخارہ نہ کرنا محرومی اور بدنصیبی ہے
ایک حدیث میں جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
۲-من شقوة ابن آدم ترکہ استخارة اللّٰہ (مجمع الاسانید )                       
یعنی اللہ تعالی سے استخارہ کا چھوڑدینا اور نہ کرنا انسان کے لیے بدبختی اور بدنصیبی میں شمار ہوتا ہے ۔
اسی طرح ایک حدیث میں حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی كريم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
۳- عن سعد بن وقاص عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: من سعادة ابن ادم استخارتہ من اللہ و من شقاوتہ ترک الاستخارة و من سعادة ابن اٰدم رضاہ بما قضاہ اللہ ومن شقوة ابن اٰدم سخطہ بما قضی اللہ(مشکوة)
ترجمہ : انسان کی سعادت اورنیک بختی یہ ہے کہ اپنے کاموں میں استخارہ کرے اور بدنصیبی یہ ہے کہ استخارہ کو چھوڑ بیٹھے،اور انسان کی خوش نصیبی اس میں ہے کہ اس کے بارے میں کیے گئے اللہ کے ہر فیصلے پر راضی رہے اور بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرے۔
استخارہ کرنے والا ناکام نہیں ہوگا
ایک حدیث میں حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
۴- ما خاب من استخار وما ندم من استشار (طبرانی)
یعنی جو آدمی اپنے معاملات میں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہیں ہوگا اور جو شخص اپنے کاموں میں مشورہ کرتا ہو اس کو کبھی شرمندگی یا پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے گا کہ میں نے یہ کام کیوں کیا ؟یا میں نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟ ، اس لیے کہ جو کام کیا وہ مشورہ کے بعد کیا اور اگر نہیں کیا تو مشورہ کے بعد نہیں کیا ، اس وجہ سے وہ شرمندہ نہیں ہوگا ۔
اس حدیث میں جو یہ فرمایا کہ استخارہ کرنے والاناکام نہیں ہوگا ،مطلب اس کا یہ کہ انجام کے اعتبار سے استخارہ کرنے والے کو ضرور کامیابی ہوگی ، چاہے کسی موقع پر اس کے دل میں یہ خیال بھی آجائے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ، لیکن اس خیال کے آنے کے باوجود کامیابی اسی شخص کو ہوگی جو اللہ تعالی سے استخارہ کرتا رہے ، اسی طرح جو شخص مشورہ کرکے کام کرے گا وہ کبھی پچھتائے گا نہیں ، اس لیے کہ خدا نخواستہ اگر وہ کام خراب بھی ہوگیا تو اس کے دل میں اس بات کی تسلی ہوگی کہ میں نے یہ کام اپنی خود رائی اور اپنے بل بوتے پر نہیں کیا تھا بلکہ اپنے دوستوں اور بڑوں سے مشورہ کے بعد کیا تھا ، اب آگے اللہ تعالی کے حوالے ہے کہ وہ جیسا چاہیں فیصلہ فرمادیں۔ اس لیے آپ صلى الله عليه وسلم نے دوباتوں کا مشورہ دیا ہے کہ جب بھی کسی کام میں کشمکش ہو تو دو کام کرلیا کرو ، ایک استخارہ اور دوسرے استشارہ یعنی مشورہ۔
استخارہ کا مقصد
محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
 ”واضح ہو کہ استخارہٴ مسنونہ کا مقصد یہ ہے کہ بندے کے ذمے جو کام تھا وہ اس نے کرلیا اور اپنے آپ کو حق تعالی کے علم محیط اور قدرت کاملہ کے حوالہ کردیا ، گویا استخارہ کرنے سے بندہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوگیا ، ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان کسی تجربہ کار عاقل اور شریف شخص سے مشورہ کرنے جاتا ہے تو وہ شخص صحیح مشورہ ہی دیتا ہے اور اپنی مقدور کے مطابق اس کی اعانت بھی کرتا ہے ، گویا استخارہ کیا ہے ؟حق تعالی سے مشورہ لینا ہے ،اپنی درخواست استخارہ کی شکل میں پیش کردی ، حق تعالی سے بڑھ کر کون رحیم وکریم ہے ؟ اس کا کرم بے نظیر ہے ، علم کامل ہے اور قدرت بے عدیل ہے ، اب جو صورت انسان کے حق میں مفید ہوگی، حق تعالی اس کی توفیق دے گا ، اس کی رہنمائی فرمائے گا ، پھر نہ سوچنے کی ضرورت ، نہ خواب میں نظر آنے کی حاجت، جو اس کے حق میں خیر ہوگا وہی ہوگا ، چاہے اس کے علم میں اس کی بھلائی آئے یا نہ آئے ، اطمینان وسکون فی الحال حاصل ہویانہ ہو ، ہوگا وہی جو خیر ہوگا ، یہ ہے استخارہ مسنونہ کا مطلوب !اسی لئے تمام امت کے لئے تاقیامت یہ دستور العمل چھوڑا گیا ہے “۔(دورحاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کی حکمت
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی شہرہٴ آفاق تصنیف ”حجة اللّٰہ البالغة“ میں استخارہ کی دو حکمتیں بیان فرمائیں ہیں :
۱-            فال نکالنے سے نجات اور اس کی حرمت
۱- پہلی حکمت یہ کہ زمانہ جاہلیت میں دستور تھا کہ جب کوئی اہم کام کرنا ہوتا مثلا سفر یا نکاح یا کوئی بڑا سودا کرنا ہوتا تو وہ تیروں کے ذریعے فال نکالا کرتے تھے ، یہ تیر کعبہ شریف کے مجاور کے پاس رہتے تھے ، ان میں سے کسی تیر پر لکھا ہوتا ”امرنی ربی“ (میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے) اور کسی پر لکھا ہوتا ”نہانی ربی“(میرے رب نے مجھے منع کیا ہے)اور کوئی تیر بے نشان ہوتا، اس پر کچھ لکھا ہوا نہیں ہوتا تھا، مجاور تھیلا ہلا کر فال طلب کرنے والے سے کہتا کہ ہاتھ ڈال کر ایک تیر نکال لے ،اگر”امرنی ربی“(کام کے حکم )والا تیر نکلتا تو وہ شخص کام کرتا اور”نہانی ربی“(کام سے منع) والا تیر نکلتا تو وہ کام سے رک جاتا اور بے نشان تیر ہاتھ میں آتا تو دوبارہ فال نکالی جاتی، سورة مائدہ آیت نمبر ۳ کے ذریعے اس کی حرمت نازل ہوئی ، اور حرمت کی دو وجہیں ہیں :
۱- یہ ایک بے بنیاد عمل ہے اور محض اتفاق ہے ، جب بھی تھیلے میں ہاتھ ڈالا جائے گا تو کوئی نہ کوئی تیر ضرور ہاتھ آئے گا ۔
۲- اس طرح سے فال نکالنا یہ اللہ تعالی پر افترا اور جھوٹا الزا م ہے ، اللہ تعالی نے کہاں حکم دیا ہے اور کب منع کیا ہے ؟اور اللہ پر افتراء حرام ہے ۔
نبی صلى الله عليه وسلم نے لوگوں کو فال کی جگہ استخارہ کی تعلیم دی ہے، اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بندہ رب علیم سے رہنمائی کی التجاء کرتا ہے تو اپنے معاملے کو اپنے مولی کے حوالے کرکے اللہ کی مرضی معلوم کرنے کا شدید خواہش مند ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالی کے دروازے پر جا پڑتا ہے اور اس کا دل ملتجی ہوتا ہے تو ممکن نہیں کہ اللہ تعالی اپنے بندے کی رہنمائی اور مدد نہ فرمائیں ، اللہ تعالی کی طرف سے فیضان کا باب کشادہ ہوتا ہے ، اور اس پر معاملہ کا راز کھولاجاتا ہے ، چنانچہ استخارہ محض اتفاق نہیں ہے، بلکہ اس کی مضبوط بنیاد ہے ۔
۲-           فرشتوں سے مشابہت
۲-دوسری حکمت یہ کہ استخارہ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فرشتہ صفت بن جاتا ہے ، استخارہ کرنے والا اپنی ذاتی رائے سے نکل جاتا ہے اور اپنی مرضی کو خدا کی مرضی کے تابع کردیتا ہے ،اس کی بہیمیت (حیوانیت) ملکیت(فرشتہ صفتی)کی تابع داری کرنے لگتی ہے اور وہ اپنا رخ پوری طرح اللہ کی طرف جھکادیتا ہے تو اس میں فرشتوں کی سی خو بو پیدا ہوجاتی ہے ، ملائکہ الہام ربانی کا انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو الہام ہوتا ہے تو وہ داعیہ ربانی سے اس معاملے میں اپنی سی پوری کوشش خرچ کرتے ہیں ، ان میں کوئی داعیہ نفسانی نہیں ہوتا ، اسی طرح جو بندہ بکثرت استخارہ کرتا ہے وہ رفتہ رفتہ فرشتوں کے مانند ہوجاتا ہے ، حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :ملائکہ کے مانند بننے کا یہ ایک تیر بہدف مجرب نسخہ ہے جو چاہے آزما کر دیکھے۔ (حجةاللہ البالغة)
استخارہ کا مسنون اور صحیح طریقہ
سنت کے مطابق استخارہ کا سیدھا سادہ اور آسان طریقہ یہ ہے کہ دن رات میں کسی بھی وقت (بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو)دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کرے کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔
 سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی وہ مسنون دعا مانگیں جو حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے، یہ بڑی عجیب دعا ہے ،اللہ جل شانہ کے نبی ہی یہ دعا مانگ سکتے ہے اور کسی کے بس کی بات نہیں ، کوئی گوشہ زندگی کا اس دعاء میں نبی صلى الله عليه وسلم نے چھوڑا نہیں ، اگر انسان ایڑی چوٹی کا زور لگا لیتا تو بھی ایسی دعا کبھی نہ کرسکتا جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ،اگرکسی کو دعا یاد نہ ہو توکوئی بات نہیں کتاب سے دیکھ کریہ دعا مانگ لے ،اگر عربی میں دعا مانگنے میں دقت ہورہی ہو تو ساتھ ساتھ اردو میں بھی یہ دعا مانگے، بس ! دعا کے جتنے الفاظ ہیں، وہی اس سے مطلوب ومقصود ہیں ، وہ الفاظ یہ ہیں :
استخارہ کی مسنون دعا
اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَاِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ
اَللّٰہُمَّ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ہٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَ مَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاقْدِرْہُ لِیْ ، وَ یَسِّرْہُ لِیْ ، ثُمَّ بَارِکْ لِیْ فِیْہِ
وَ اِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ ھٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّیْ فِیْ دِیْنِیْ وَمَعَاشِیْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِیْ وَ عَاجِلِہ وَ اٰجِلِہ ، فَاصْرِفْہُ عَنِّیْ وَاصْرِفْنِیْ عَنْہُ ، وَاقْدِرْ لِیَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ اَرْضِنِیْ بِہ(بخاری،ترمذی)
دعاکرتے وقت جب ”ہذا الامر “پر پہنچے (جس کے نیچے لکیر بنی ہے) تو اگر عربی جانتا ہے تو اس جگہ اپنی حاجت کا تذکرہ کرے یعنی ”ہذا الامر “کی جگہ اپنے کام کا نام لے، مثلا ”ہذا السفر “یا ”ہذا النکاح “ یا ”ہذہ التجارة “یا ”ہذا البیع “کہے ، اور اگر عربی نہیں جانتا تو ”ہذا الأمر “ہی کہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچے اور دھیان دے جس کے لیے استخارہ کررہا ہے۔
استخارہ کی دعا کا مطلب ومفہوم
اے اللہ ! میں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خیراور بھلائی طلب کرتا ہوں اور آپ کی قدرت کا واسطہ دے کر میں اچھائی پر قدرت طلب کرتا ہوں ، آپ غیب کو جاننے والے ہیں ۔
اے اللہ ! آپ علم رکھتے ہیں میں علم نہیں رکھتا ، یعنی یہ معاملہ میرے حق میں بہتر ہے یا نہیں ،اس کا علم آپ کو ہے، مجھے نہیں ، اور آپ قدرت رکھتے ہیں اور مجھ میں قوت نہیں ۔
یا اللہ ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں بہتر ہے ، میرے دین کے لیے بھی بہتر ہے ، میری معاش اور دنیا کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور انجام کار کے اعتبار سے بھی بہتر ہے اور میرے فوری نفع کے اعتبار سے اور دیرپا فائدے کے اعتبار سے بھی تو اس کو میرے لیے مقدر فرمادیجیے اور اس کو میرے لیے آسان فرمادیجیے اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادیجیے ۔
اور اگر آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ یہ معاملہ (اس موقع پر اس معاملہ کا تصور دل میں لائیں جس کے لیے استخارہ کررہا ہے ) میرے حق میں برا ہے ،میرے دین کے حق میں برا ہے یا میری دنیا اور معاش کے حق میں برا ہے یا میرے انجام کار کے اعتبار سے برا ہے، فوری نفع اور دیرپا نفع کے اعتبار سے بھی بہتر نہیں ہے تو اس کام کو مجھ سے پھیر دیجیے اور مجھے اس سے پھیر دیجیے اور میرے لیے خیر مقدر فرمادیجیے جہاں بھی ہو ، یعنی اگر یہ معاملہ میرے لیے بہتر نہیں ہے تو اس کو چھوڑ دیجیے اور اس کے بدلے جو کام میرے لیے بہتر ہو اس کو مقدر فرمادیجیے ، پھر مجھے اس پر راضی بھی کر دیجیے اور اس پر مطمئن بھی کردیجیے ۔           (اصلاحی خطبات)
استخارہ کتنی بار کیا جائے؟
حضرت انس رضى الله تعالى عنه ایک روایت میں فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ انس ! جب تم کسی کام کا ارادہ کرو تو اس کے بارے میں اللہ تعالی سے سات مرتبہ استخارہ کرو ، پھر اس کے بعد (اس کا نتیجہ) دیکھو، تمہارے دل میں جو کچھ ڈالا جائے ، یعنی استخارے کے نتیجے میں بارگاہ حق کی جانب سے جو چیز القاء کی جائے اسی کو اختیار کرو کہ تمہارے لیے وہی بہتر ہے۔(مظاہر حق)
بہتر یہ ہے کہ استخارہ تین سے سات دن تک پابندی کے ساتھ متواتر کیا جائے، اگر اس کے بعد بھی تذبذب اور شک باقی رہے تو استخارہ کاعمل مسلسل جاری رکھے ، جب تک کسی ایک طرف رجحان نہ ہوجائے کوئی عملی اقدام نہ کرے ، اس موقع پر اتنی بات سمجھنی ضروری ہے کہ استخارہ کرنے کے لیے کوئی مدت متعین نہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو ایک ماہ تک استخارہ کیا تھا تو ایک ماہ بعد آپ کو شرح صدر ہوگیا تھا اگر شرح صدر نہ ہوتا تو آپ آگے بھی استخارہ جاری رکھتے۔(رحمة اللہ الواسعة)
حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
 ”دعائے استخارہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی سے دعائے خیر کرتا رہے ، استخارہ کرنے کے بعد ندامت نہیں ہوتی اور یہ مشورہ کرنا نہیں ہے، کیونکہ مشورہ تو دوستوں سے ہوتا ہے ، استخارہ سنت عمل ہے ، اس کی دعا مشہور ہے ،اس کے پڑھ لینے سے سات روز کے اندر اندر قلب میں ایک رجحان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ خواب میں کچھ نظرآنا ،یا یہ قلبی رجحان حجت شرعیہ نہیں ہیں کہ ضرور ایسا کرناہی پڑے گا ، اور یہ جو دوسروں سے استخارہ کرایا کرتے ہیں ،یہ کچھ نہیں ہے ، بعض لوگوں نے عملیات مقرر کرلیے ہیں دائیں طرف یا بائیں طرف گردن پھیرنا یہ سب غلط ہیں ، ہاں دوسروں سے کرالینا گناہ تو نہیں لیکن اس دعا کے الفاظ ہی ایسے ہیں کہ خود کرنا چاہیے“۔(مجالس مفتی اعظم )
استخارہ کا نتیجہ اور مقبول ہونے کی علامت
استخارہ سے کس طرح رہنمائی ملے گی ؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ استخارہ کا صرف اتنا اثر ہوتا ہے کہ جس کام میں تردد اور شک ہو کہ یوں کرنا بہتر ہے یا یوں ؟یا یہ کرنا بہتر ہے یا نہیں ؟تو استخارے کے مسنون عمل سے دو فائدے ہوتے ہیں :
۱-دل کا کسی ایک بات پر مطمئن ہوجانا۔
۲-اور اس مصلحت کے اسباب میسر ہوجانا ۔
تاہم اس میں خواب آنا ضروری نہیں ۔(اصلاح انقلاب امت)
استخارہ میں صرف یکسوئی کا حاصل ہونا استخارہ کے مقبول ہونے کی دلیل ہے، اس کے بعد اس کے مقتضی پر عمل کرے ، اگرکئی مرتبہ استخارہ کے بعد بھی یکسوئی اور کسی ایک جانب اطمینان نہ ہوتو استخارہ کے ساتھ ساتھ استشارہ بھی کرے یعنی اس کام میں کسی سے مشورہ بھی لے لیکن استخارہ میں ضروری نہیں کہ یکسوئی ہوا ہی کرے۔(الکلام الحسن)
بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ استخارہ کرنے کے بعد خود انسان کے دل کا رجحان ایک طرف ہوجاتا ہے ، بس جس طرف رجحان ہوجائے وہ کام کر لے ، اور بکثرت ایسا رجحان ہوجاتا ہے ، لیکن بالفرض اگر کسی ایک طرف رجحان نہ بھی ہو بلکہ دل میں کشمکش موجود ہو تو بھی استخارہ کا مقصد حاصل ہوگیا ، اس لیے کہ بندہ کے استخارہ کرنے کے بعد اللہ تعالی وہی کرتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ، اس کے بعد حالات ایسے پیدا ہوجاتے ہیں پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے اور اس کو پہلے سے معلوم بھی نہیں ہوتا ، بعض اوقات انسان ایک راستے کو بہت اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن اچانک رکاوٹیں پیدا ہوجاتی ہیں اور اللہ تعالی اس کو اس بندے سے پھیر دیتے ہیں ، لہذا اللہ تعالی استخارہ کے بعد اسباب ایسے پیدا فرمادیتے ہیں کہ پھر وہی ہوتا ہے جس میں بندے کے لیے خیر ہوتی ہے ، اب خیر کس میں ہے ؟ انسان کو پتہ نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی فیصلہ فرمادیتے ہیں ۔
بس استخارہ کی حقیقت اتنی سی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھ کر دعا مانگ لی ، پھر آگے جوہوگا اسی میں خیر ہے ، کام ہوگیا تو خیر ! نہیں ہوا تو خیر ! دل جس طرف متوجہ ہو جائے اور جس کے اسباب پیدا ہورہے ہوں یقین کر لیں کہ یہی میرے لیے بہتر ہے اور اگر دل کی توجہ ہٹ گئی یا اسباب پیدا نہیں ہوئے یا اسباب موجود تھے مگر استخارہ کے بعد ختم ہوگئے، کام نہیں ہوسکا تو اطمینان رکھے، اللہ پر یقین رکھے کہ اس میں میری بہتری ہوگی ، اپنی طبیعت بہت چاہتی ہے مگر اللہ تعالی میرے نفع ونقصان کو مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں، اس طرح سوچنے سے ان شاء اللہ اطمینان ہوجائے گا ، اگر دل کا رجحان کسی جانب نہ ہو تو صرف اسباب کے پیش نظر جو فیصلہ بھی کرلے گا اس میں خیر ہوگی ، خدا نخواستہ اگر استخارہ کے بعد کوئی نقصان بھی ہوجائے تو یہ عقیدہ رکھے کہ استخارہ کی برکت سے اللہ تعالی نے چھوٹے نقصان کے ذریعے کسی بڑے نقصان سے بچا لیا ، استخارہ کی دعا میں دین کا ذکر پہلے ہے اور دنیا کا بعدمیں، اس لیے کہ مسلمان کا اصل مقصد دین ہے، دنیا تودر حقیقت دین کے تابع ہے ۔
استخارہ کے باوجود اگرنقصان ہوگیا تو ؟!
عن مکحول الازدی رحمہ اللہ تعالی قال : سمعت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ یقول: ان الرجل یستخیر اللہ تبارک وتعالی فیختار لہ، فیسخط علی ربہ عز وجل، فلا یلبث ان ینظر فی العاقبة فاذا ہو خیر لہ (کتاب الزہد)
مکحول ازدی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کا یہ ارشاد سنا ،فرماتے ہیں کہ بعض اوقات انسان اللہ تعالی سے استخارہ کرتا ہے کہ جس کام میں میرے لیے خیر ہو وہ کام ہوجائے تو اللہ تعالی اس کے لیے وہ کام اختیار فرمادیتے ہیں جو اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے ،لیکن ظاہری اعتبار سے وہ کام اس بندہ کی سمجھ میں نہیں آتا تو بندہ اپنے پروردگار سے ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اللہ تعالی سے تو یہ کہا تھا کہ میرے لیے اچھا کام تلاش کیجیے ، لیکن جو کام ملا وہ تو مجھے اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، اس میں میرے لیے تکلیف اور پریشانی ہے ، لیکن کچھ عرصے بعد جب انجام سامنے آتا ہے تب اس کو پتہ چلتا ہے کہ حقیقت میں اللہ تعالی نے میرے لیے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا ، اس وقت اس کو پتہ نہیں تھا اور یہ سمجھ رہا تھا کہ میرے ساتھ زیادتی اور ظلم ہوا ہے ، اوراصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالی کے فیصلے کا صحیح ہونا بعض اوقات دنیا میں ظاہر ہوجاتا ہے اور بعض اوقات آخرت میں ظاہر ہوگا۔
اب جب وہ کام ہوگیا تو ظاہری اعتبار سے بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ جو کام ہوا وہ اچھا نظر نہیں آرہا ہے ، دل کے مطابق نہیں ہے ، تو اب بندہ اللہ تعالی سے شکوہ کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں نے آپ سے استخارہ کیا تھا مگر کام وہ ہوگیا جو میری مرضی اور طبیعت کے خلاف ہے اور بظاہر یہ کام اچھا معلوم نہیں ہورہا ہے ، اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں کہ ارے نادان ! تو اپنی محدود عقل سے سوچ رہا ہے کہ یہ کام تیرے حق میں بہتر نہیں ہوا ، لیکن جس کے علم میں ساری کائنات کا نظام ہے وہ جانتا ہے کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور کیا بہتر نہیں تھا ، اس نے جو کیا وہی تیرے حق میں بہتر تھا ، بعض اوقات دنیا میں تجھے پتہ چل جائے گا کہ تیرے حق میں کیا بہتر تھا اور بعض اوقات پوری زندگی میں کبھی پتہ نہیں چلے گا ، جب آخرت میں پہنچے گا تب وہاں جا کر پتہ چلے گا کہ واقعة یہی میرے لیے بہتر تھا۔
اس کی مثال یوں سمجھیں جیسے ایک بچہ ہے جو ماں باپ کے سامنے مچل رہا ہے کہ فلاں چیز کھاوٴں گا اور ماں باپ جانتے ہیں کہ اس وقت یہ چیز کھانا بچے کے لیے نقصان دہ اور مہلک ہے ، چنانچہ ماں باپ بچے کو وہ چیز نہیں دیتے ، اب بچہ اپنی نادانی کی وجہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میرے ماں باپ نے مجھ پر ظلم کیا ،میں جو چیز مانگ رہا تھا وہ مجھے نہیں دی اور اس کے بدلے میں مجھے کڑوی کڑوی دوا کھلا رہے ہیں ، اب وہ بچہ اس دوا کو اپنے حق میں خیر نہیں سمجھ رہا ہے لیکن بڑا ہونے کے بعد جب اللہ تعالی اس بچے کو عقل اور فہم عطا فرمائیں گے اور اس کو سمجھ آئے گی تو اس وقت اس کو پتہ چلے گا کہ میں تو اپنے لیے موت مانگ رہا تھا اور میرے ماں باپ میرے لیے زندگی اور صحت کا راستہ تلاش کررہے تھے ، اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر ماں باپ سے زیادہ مہربان ہیں ، اس لیے اللہ تعالی وہ راستہ اختیار فرماتے ہیں جو انجام کار بندہ کے لیے بہتر ہوتا ہے ، اب بعض اوقات اس کا بہتر ہونا دنیا میں پتہ چل جاتا ہے اور بعض اوقات دنیا میں پتہ نہیں چلتا ۔
یہ کمزور انسان کس طرح اپنی محدود عقل سے اللہ تعالی کے فیصلوں کا ادراک کرسکتا ہے، وہی جانتے ہیں کہ کس بندے کے حق میں کیا بہتر ہے؟ انسان صرف ظاہر میں چند چیزوں کو دیکھ کر اللہ تعالی سے شکوہ کرنے لگتا ہے اور اللہ تعالی کے فیصلوں کو برا ماننے لگتا ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں کرسکتا کہ کس کے حق میں کیا اور کب بہتر ہے ۔
اسی وجہ سے اس حدیث میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمارہے ہیں کہ جب تم کسی کام کا استخارہ کرچکو تو اس کے بعد اس پر مطمئن ہوجاوٴ کہ اب اللہ تعالی جو بھی فیصلہ فرمائیں گے وہ خیر ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ، چاہے وہ فیصلہ ظاہر نظر میں تمہیں اچھا نظر نہ آرہا ہو ، لیکن انجام کے اعتبار سے وہی بہتر ہوگا ، اور پھر اس کا بہتر ہونا یا تو دنیا ہی میں معلوم ہوجائے گا، ورنہ آخرت میں جا کر تو یقینا معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالی نے جو فیصلہ کیا تھا وہی میرے حق میں بہتر تھا۔ (اصلاحی خطبات)
استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
”اب دیکھئے یہ(استخارہ) کس قدر آسان کام ہے مگر اس میں بھی شیطان نے کئی پیوند لگادیے ہیں :
 ۱- پہلا پیوند یہ کہ دو رکعت پڑھ کر کسی سے بات کیے بغیر سو جاؤ ، سونا ضروری ہے ورنہ استخارہ بے فائدہ رہے گا۔
۲- دوسرا پیوند یہ لگایا کہ لیٹو بھی دائیں کروٹ پر ۔
۳- تیسرا یہ کہ قبلہ رو لیٹو ۔
 ۴- چوتھا پیوند یہ لگایا کہ لیٹنے کے بعد اب خواب کا انتظار کرو ، استخارہ کے دوران خواب نظر آئے گا ۔
۵- پانچواں پیوند یہ لگایا کہ اگر خواب میں فلاں رنگ نظر آئے تو وہ کام بہتر ہوتا ہے ، فلاں نظر آئے تو وہ بہتر نہیں ۔

۶- چھٹا پیوند یہ لگایا کہ اس خواب میں کوئی بزرگ آئے گا بزرگ کا انتظار کیجیے کہ وہ خواب میں آکر سب کچھ بتادے گا ، لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بزرگ کون ہو گا؟اگر شیطان ہی بزرگ بن کر خواب میں آجائے تو اس کو کیسے پتہ چلے گا کہ یہ شیطان ہے یا کوئی بزرگ؟
یاد رکھیے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز بھی حدیث سے ثابت نہیں ، بس یہ باتیں لکھنے والوں نے کتابوں میں بغیر تحقیق کے لکھ دی ہیں ، اللہ تعالی ان لکھنے والے مصنّفین پر رحم فرمائیں“۔ (خطبات الرشید)
باوضو ،قبلہ رخ اور دائیں کروٹ پر سونا نیندکے آداب میں سے تو ضرور ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ استخارہ رات کو سونے سے پہلے ان مذکورہ بالا شرائط کے ساتھ لازمی سمجھ کر کیا جائے ۔
۱-         استخارہ صرف اہم کام کے لیے نہیں !
اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ صرف اسی کام میں ہے جو کام بہت اہم یا بڑا ہے اور جہاں انسان کے سامنے دو راستے ہیں یا جس کام میں انسان کو تردد یا شک ہے صرف ایسے ہی کاموں میں استخارہ کرنا چاہیے ، چنانچہ آج کل عوام الناس کو اپنی زندگی کے صرف چند مواقع پر ہی استخارہ کے مسنون عمل کی توفیق نصیب ہوتی ہے، مثلا نکاح کے لیے یا کاروبار کے لیے استخارہ کرلیا اور بس!گویا ہم ان چندگنے چنے مواقع پر تو اللہ سے خیر اور بھلائی کے طلب گار ہیں اور باقی تمام زندگی کے روز وشب میں ہم اللہ سے خیر مانگنے سے بے نیاز اور مستغنی ہیں، یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ استخارہ صرف اہم اور بڑے کاموں ہی میں نہیں ہے بلکہ اپنے ہر کام میں چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ، اللہ تعالی سے خیر اور بھلائی طلب کرنی چاہیے، اسی طرح استخارے میں یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کام میں تردداور تذبذب ہو تب ہی استخارہ کیا جائے ، بلکہ تردد نہ بھی ہو اور اس کام میں ایک ہی صورت اورایک ہی راستہ ہو تب بھی استخارہ کرنا چاہیے ،حدیث نبوی کے الفاظ ہیں :
کان رسول اللہ صلى الله عليه وسلم یعلمنا الاستخارة فی الامور کلھا(بخاری)
یعنی حضوراکرم صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام کو ہر کام میں استخارے یعنی اللہ سے خیر طلب کرنے کی تعلیم دیتے تھے ۔
۲-        استخارہ کے لیے کوئی وقت مقررنہیں
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ ہمیشہ رات کو سوتے وقت ہی کرنا چاہیے یا عشاء کی نماز کے بعد ہی کرنا چاہیے ، ایسا کوئی ضروری نہیں ، بلکہ جب بھی موقع ملے اس وقت استخارہ کرلے ، نہ رات کی کوئی قید ہے اور نہ دن کی کوئی قید ہے، نہ سونے کی کوئی قید ہے اور نہ جاگنے کی کوئی قید ہے بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو۔
۳-        استخارہ کے بعدخواب آنا ضروری نہیں
استخارہ کے بارے میں لوگوں کے درمیان طرح طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ، عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ”استخارہ “ کرنے کا کوئی خاص طریقہ اور خاص عمل ہوتا ہے ، اس کے بعد کوئی خواب نظر آتا ہے اور اس خواب کے اندر ہدایت دی جاتی ہے کہ فلاں کام کرو یا نہ کرو، خوب سمجھ لیں کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم سے استخارہ کا جو مسنون طریقہ ثابت ہے، اس میں اس قسم کی کوئی بات موجود نہیں ۔               
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ استخارہ کرنے کے بعدآسمان سے کوئی فرشتہ آئے گا یاکوئی کشف والہام ہوگا یا خواب آئے گا اور خواب کے ذریعے ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ کام کرو یا نہ کرو ، یاد رکھیے ! خواب آنا کوئی ضروری نہیں کہ خواب میں کوئی بات ضرور بتائی جائے یا خواب میں کوئی اشارہ ضرور دیا جائے ، بعض مرتبہ خواب میں آجاتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں آتا۔
۴-        کسی دوسرے سے ”استخارہ نکلوانا“
استخارہ کے باب میں لوگ ایک غلطی کرتے ہیں اس کی اصلاح بھی ضروری ہے وہ یہ کہ بہت سے لوگ خود استخارہ کرنے کی بجائے دوسروں سے کرواتے ہیں ،اور کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ”استخارہ نکال دیجیے“گویا جیسے فال نکالی جاتی ہے ویسے ہی استخارہ بھی نکال دیجیے، دوسروں سے استخارے کروانے کا مطلب تو وہی عمل ہوا جو جاہلیت میں مشرکین کیا کرتے تھے اور جس کے انسداداور خاتمے کے لیے آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام کو استخارے کی نماز اور دعا سکھائی، اور یہ اسی وجہ سے ہوا کہ لوگوں نے استخارے کو یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے گویا کوئی خبر مل جاتی ہے یایہ الہام ہوجاتا ہے کہ کیا کرنا چاہیے؟ جس طرح جاہلیت میں تیروں پر لکھ کر یہ معلوم کیا جاتا تھا اسی طرح آج کل تسبیح کے دانوں پر اس قسم کے استخارے کیے جارہے ہیں، یہ طریقہ بالکل غلط ہے اور انتہا تو یہ ہوگئی کہ اب عوام میں یہ رواج چل پڑا ہے کہ ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے نکلوائے جارہے ہیں،حالانکہ استخارہ اللہ تعالی سے اپنے معاملے میں خیر اور بھلائی کا طلب کرنا ہے نہ کہ خبر کا معلوم کرنا ۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی طرف سے ہدایت یہ ہے کہ جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے ، دوسروں سے کروانے کا کوئی ثبوت نہیں ،جب حضور اقدس صلى الله عليه وسلم دنیا میں موجود تھے اس وقت صحابہ سے زیادہ دین پر عمل کرنے والا کوئی نہیں تھا اور حضور سے بہتر استخارہ کرنے والا بھی کوئی نہ تھا لیکن آج تک کہیں یہ نہیں لکھا کہ کسی صحابی نے حضور سے جا کر یہ کہا ہو کہ آپ میرے لیے استخارہ کردیجیے ، سنت طریقہ یہی ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے، اسی میں برکت ہے ۔ لوگ یہ سوچ کر کہ ہم تو گناہ گار ہیں ،ہمارے استخارے کا کیا اعتبار ؟ اس لیے خود استخارہ کرنے کی بجائے فلاں بزرگ اور عالم سے یا کسی نیک آدمی سے کرواتے ہیں کہ اس میں برکت ہوگی ، لوگوں کا یہ زعم اور یہ عقیدہ غلط ہے ، جس کا کام ہو وہ خود استخارہ کرے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، دوسرے سے استخارہ کرانا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،خود د عا کے الفاظ سے بھی یہی مترشح ہورہا ہے ،دعا کے الفاظ میں متکلم کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، اس لیے صاحب معاملہ کو خود کرنا چاہیے ، استخارہ دوسرے سے کروانا، ناجائز تونہیں لیکن بہتر اور مسنون بھی نہیں ہے ۔سلامتی کا طریقہ وہی ہے جو نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا طریقہ ہے کہ صاحب معاملہ خود کرے ۔
۵-        ہم گناہ گار ہیں! استخارہ کیسے کریں ؟
انسان کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، بندہ تو اللہ ہی کا ہے اور جب بندہ اللہ سے مانگے گا تو جواب ضرور آئے گا،جس ذات کا یہ فرمان ہوکہ” ادعونی استجب لکم“ مجھ سے مانگو میں دعا قبول کروں گا ۔ تویہ اس عظیم وکبیر ذات کے ساتھ بد گمانی ہے، وہ ذات تو ایسی ہے کہ شیطان جب جنت سے نکالاجارہا ہے راندہ درگاہ کیا جارہا ہے تواس وقت شیطان نے دعا کی، اللہ نے اس کی دعا کو قبول فرمایا، جو شیطان کی دعا قبول کررہا ہے کیا وہ ہم گناہ گاروں کی دعا قبول نہ کرے گا اور جب کوئی استخارہ رسول اللہ کی اتباع سنت کے طور پر کرے گا تو یہ ممکن نہیں کہ اللہ دعا نہ سنے بلکہ ضرور سنے گا اور خیر کو مقدر فرمائے گا،اللہ کی بارگاہ میں سب کی دعائیں سنی جاتی ہیں ، ہاں یہ ضرور ہے کہ گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ دعا جلد قبول ہو ۔
لوگوں میں بکثرت یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ گناہ گار استخارہ نہیں کرسکتے، یہ دو وجہ سے باطل اور غلط ہے :
۱- پہلی وجہ یہ کہ گناہوں سے بچنا آپ کے اختیار میں ہے ، مسلمان ہو کر کیوں گناہ گار ہیں؟ گناہ صادر ہوگیا تو صدق دل سے توبہ کرلیجیے ، بس گناہوں سے پاک ہوگئے ، گناہ گار نہ رہے ، نیک لوگوں کے زمرے میں شامل ہوگئے ، توبہ کی برکت سے اللہ تعالی نے پاک کردیا ، اب اللہ کی اس رحمت کی قدر کریں اور آئندہ جان بوجھ کر گناہ نہ کریں۔
۲- دوسری وجہ یہ کہ استخارہ کے لیے شریعت نے تو کوئی ایسی شرط نہیں لگائی کہ استخارہ گناہ گار انسان نہ کرے، کوئی ولی اللہ کرے ، جو شرط شریعت نے نہیں لگائی آپ اپنی طرف سے اس شرط کو کیوں بڑھاتے ہیں؟ شریعت کی طرف سے تو صرف یہ حکم ہے کہ جس کی حاجت ہو وہ استخارہ کرے خواہ وہ گناہ گار ہو یا نیک ، جیسا بھی ہو خود کرے ، عوام یہ کہتے ہیں کہ استخارہ کرنا بزرگوں کا کام ہے تو بزرگ حضرات بھی سمجھنے لگے کہ ہاں! یہ صحیح کہہ رہے ہیں ، استخارہ کرنا ہمارا ہی کام ہے ،عوام کا کام نہیں ، عوام کو غلطی پر تنبیہ کرنے کی بجائے خود غلطی میں شریک ہوگئے ، ان کے پاس جو بھی چلا جائے یہ پہلے سے تیار بیٹھے ہیں کہ ہاں لائیں ! آپ کا استخارہ ہم ”نکال دیں گے “اور استخارہ کرنے کو ”استخارہ نکالنا“کہتے ہیں ،یاد رکھیں یہ ایک غلط روش ہے اوراس غلط روش کی اصلاح فرض ہے۔
۶-        استخارہ کے ذریعہ گذشتہ یا آئندہ کا کوئی واقعہ معلوم کرنا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :استخارہ کی حقیقت یہ ہے کہ کسی امر کے مصلحت یا خلاف مصلحت ہونے میں تردد ہو تو خاص دعا پڑھ کر اللہ تعالی کی طرف متوجہ ہو ، اس کے دل میں جو بات عزم اور پختگی کے ساتھ آئے اسی میں خیر سمجھے ، استخارہ کا مقصد تردداور شک ختم کرنا ہے نہ کہ آئندہ کسی واقعے کو معلوم کرلینا۔
بعض لوگ استخارہ کی یہ غرض بتلاتے ہیں کہ اس سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والا کوئی واقعہ یا آئندہ ہونے والا واقعہ معلوم ہوجاتا ہے ، سو استخارہ شریعت میں اس غرض سے منقول نہیں ، بلکہ وہ تو محض کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا تردد اور شک دور کرنے کے لیے ہے ، نہ کہ واقعات معلوم کرنے کے لیے ،بلکہ ایسے استخارہ کے ثمرہ اور نتیجے پر یقین کرنا بھی ناجائز ہے ۔(اغلاط العوام)
۷-        استخارہ کے ذریعے چور کا پتہ یا خواب میں کوئی بات معلوم کرنا
یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح استخارہ سے گذشتہ زمانے میں پیش آنے والاکوئی واقعہ نہیں پتہ چل سکتا بالکل اسی طرح آئندہ پیش آنے والا واقعہ کہ فلاں بات یوں ہوگی معلوم نہیں کیا جاسکتا ، اور اگر کوئی استخارہ کو اس غرض کے لیے سمجھے ہوئے ہے تو وہ اپنے غلط خیال کی اصلاح کرے کہ یہ بالکل باطل اعتقاد ہے ، مثلا کسی کے ہاں چوری ہوجائے تو اس غرض کے لیے کہ چور کا پتہ معلوم ہوجائے استخارہ کرنا نہ تو جائز ہے اور نہ مفید ہے ۔
اور بعض بزرگوں سے جواس قسم کے بعض استخارے منقول ہیں جس سے کوئی واقعة صراحتا یا اشارة خواب میں نظر آجائے ،سو وہ استخارہ نہیں ہے بلکہ خواب نظر آنے کا عمل ہے ، پھر اس کا یہ اثر بھی لازمی نہیں ، خواب کبھی نظر آتا ہے اور کبھی نہیں اور اگر خواب نظر آبھی گیا تو وہ محتاج تعبیر ہے، اگرچہ صراحت کے ساتھ نظر آئے پھر تعبیر جو ہوگی وہ بھی ظنی ہوگی یقینی نہیں ، اس میں اتنے شبہات ہیں پس اس کو استخارہ کہنا یا مجاز ہے اگر ان بزرگوں سے یہ نام منقول ہے، ورنہ اغلاط عامہ میں سے ہے ۔ (اصلاح انقلاب امت)
۸-        استخارہ کام کے ارادہ سے پہلے ہو
استخارہ کا یہ طریقہ نہیں ہے کہ ارادہ ابھی کر لو پھر برائے نام استخارہ بھی کرلو ، استخارہ تو ارادہ سے پہلے کرنا چاہیے تاکہ ایک طرف قلب کو سکون پیدا ہوجائے ، اس میں لوگ بڑی غلطی کرتے ہیں ، استخارہ اس شخص کے لیے مفید ہوتا ہے جو خالی الذہن ہو ورنہ جو خیالات ذہن میں بھرے ہوئے ہوتے ہیں دل اسی جانب مائل ہوجاتا ہے اور وہ شخص اس غلط فہمی کا شکار رہتا ہے کہ یہ بات استخارہ سے معلوم ہوئی ہے ۔         
۹-        استخارہ صرف جائز کاموں میں ہے
 ایک بات یہ بھی سمجھ لینی چاہیے کہ استخارہ کا محل مباحات ہے ،جو مباح یعنی جائز کام ہیں ان میں استخارہ کرناچاہیے ،جو چیزیں اللہ نے فرض کردی ہیں یا واجبات اور سنن موٴکدہ ہیں ان میں استخارے کی حاجت نہیں ۔
 اسی طرح جن کاموں کو اللہ اوراس کے رسول نے حرام اور ناجائز کردیا ہے ان میں بھی استخارہ نہیں ہے ،مثلا کوئی آدمی استخارہ کرے کہ نماز پڑھوں یانہ پڑھوں؟ روزہ رکھوں یانہ رکھوں؟ تویہاں استخارہ نہیں، یہ کام تو اللہ تعالی نے فرض کردیاہے ،یا کوئی شخص اس بارے میں استخارہ کرے کہ شراب پیوں یانہ پیوں، رشوت لوں کہ نہ لوں ،ویڈیو فلموں کا کاروبار کروں نہ کروں، سودی معاملہ کروں یانہ کروں تو ان سب منہیات میں بھی استخارہ نہیں کیا جائے گا، بلکہ یہ سب تو حرام ہیں، استخارہ ان چیزوں میں کیا جائے جو جائز امورہیں،رزق حلال کے حاصل کرنے اور کسب معاش کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو فریضہ ہے استخارہ اس میں کیا جائے کہ رزق حلال کے حصول کے لیے ملازمت کروں یا تجارت کروں ؟ تجارت کپڑے کی کی جائے یا اشیائے خورد ونوش کی؟ اب یہاں استخارہ کی ضرورت ہے ، اسی طرح اگر حج کے لیے جانا ہو تو یہ استخارہ نہ کرے کہ میں جاوٴں یا نہ جاوٴں؟ بلکہ یوں استخارہ کرے کہ فلاں دن جاوٴں یا نہ جاوٴں ؟۔
رشتوں کے لیے استخارہ
رشتہ کا معاملہ عام معاملات سے الگ ہے ، یہ صرف اولاد کا کام نہیں بلکہ والدین کا کام بھی ہے ، صحیح رشتہ کا انتخاب والدین ہی کرسکتے ہیں ، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور ان کومستقبل کے حوالے سے سوچنا پڑتا ہے کہ کہاں رشتہ کریں ؟اس لیے بہتر یہ ہے کہ جن لڑکوں یا لڑکیوں کی شادی کا مسئلہ ہے وہ خود بھی استخارہ کرلیں اور اگر ان کے والدین زندہ ہوں تو وہ بھی کرلیں۔
استخارہ ہر مشکل، پریشانی اور فتنے سے بچاوٴکا حل
محدث العصر حضرت بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
”دورِ حاضر میں امت کا شیرازہ جس بری طرح سے بکھر گیا ہے ، مستقبل قریب میں اس کی شیرازہ بندی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جب استشارے کا راستہ بند ہوگیا تو اب صرف استخارہ کا راستہ ہی باقی رہ گیا ہے ، حدیث شریف میں تو فرمایاتھا:
مَاخَابَ مَنْ اِسْتَخَارَ وَمَا نَدِمَ مَنْ اِسْتَشَارَ
ترجمہ : جو استخارہ کرے گا خائب وخاسر(ناکام اور نقصان اٹھانے والا) نہ ہوگا، اور جو مشورہ کرے گاوہ پشیمان شرمندہ نہ ہوگا۔
عوام کے لئے یہی دستور العمل ہے کہ اگر کوئی ان فتنوں میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا تو مسنون استخارہ کرکے عمل کرے اور امید ہے کہ استخارہ کے بعد اس کا قدم صحیح ہوگا ، مسنون استخارہ کا مطلب یہی ہے کہ انسان جب کسی امر میں متحیر اور متردد ہوتا ہے اور کوئی واضح اور صاف پہلو نظر نہیں آتا، اس کا علم رہنمائی سے قاصراور اس کی طاقت بہتر کام کرنے سے عاجز تو حق تعالی کی بارگاہ رحمت والطاف میں التجا کرتا ہے اور حق تعالی کی بارگاہ سے دعا ، توکل تفویض اور تسلیم ورضا بالقضا ء کے راستوں سے کرتا ہے کہ وہ اس کی دستگیری اور رہنمائی فرمائے ، بہتر صورت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)“۔(دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج)
استخارہ کے خود ساختہ طریقے اور ان کے مفاسد
اس زمانے کے مسلمانوں نے استخارہ کے کئی ایسے طریقے خود گھڑ لیے ہیں جن کا طریقہ مسنونہ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو استخارہ کا طریقہ بیان فرمایا در حقیقت وہ اللہ تعالی کے حکم سے ہے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول کے ذریعے بندوں تک پہنچایا مگر بندوں نے یہ قدر کی کہ اسے پس پشت ڈال کر اپنی طرف سے کئی طریقے ایجاد کر لیے ، اللہ تعالی نے جو استخارہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو سکھا یا آپ صلى الله عليه وسلم نے وہی اپنی امت کو سکھایا اور ایسے اہتمام سے سکھایا جیسے قرآن کی سورت سکھاتے تھے ۔
مگر آج کے مسلمانوں نے اللہ تعالی کے ارشاد فرمائے ہوئے طریقے کے مقابلے میں اپنی پسند کے مختلف طریقے گھڑ لیے ہیں ،انہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر اعتماد نہیں۔تو وہ تمام طریقے مسنون نہیں ہے ، کوئی تکیہ کے نیچے رکھنے کا ہے ،کوئی سر کے گھوم جانے کا ہے ، کوئی تسبیح پر پڑھنے کا ہے وغیرہ وغیرہ ، اس میں سے کوئی سنت سے ثابت نہیں ہے بلکہ ان طریقوں میں تو ایک گونہ خطرے کا اندیشہ ہے ، رسول اللہ کا سنت طریقہ چھوڑ کردوسرے طریقے اختیار کرنا پتہ نہیں اللہ کو پسند بھی ہویا نہ ہو۔
وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں
استخارے کا ایک اور مسنون طریقہ
سنت استخارے کا ایک تفصیلی طریقہ تو وہ ہوا جس کو ماقبل میں تفصیل سے بیان کردیا گیا لیکن قربان جایے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے وقت کی کمی اور فوری فیصلے کی صورت میں بھی ایک مختصر سا استخارہ تجویز فرمادیا تاکہ استخارے سے محرومی نہ ہوجائے ،اس سے قبل استخارہ کا جو مسنون طریقہ عرض کیا گیا، یہ تو اس وقت ہے جب آدمی کو استخارہ کرنے کی مہلت اور موقع ہو ، اس وقت تو وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھ کر وہ استخارہ کی مسنون دعا کرے ، لیکن بسا اوقات انسان کو اتنی جلدی اور فوری فیصلہ کرنا پڑتا ہے، دو رکعت پڑھ کر دعا کرنے کا موقع ہی نہیں ہوتا ، اس لیے کہ اچانک کوئی کام سامنے آگیا اور فورا اس کے کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنا ہے ،اتنا وقت ہے نہیں کہ دو رکعت نفل پڑھ کر استخارہ کیا جائے تو ایسے موقع کے لیے خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ایک دعا تلقین فرمائی ،وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ خِرْ لِیْ وَاخْتَرْ لِیْ (کنز العمال)
اے اللہ ! میرے لیے آپ پسندفرمادیجیے کہ مجھے کون سا راستہ اختیار کرنا چاہیے ، بس یہ دعا پڑھ لے ، اس کے علاوہ ایک اور دعا حضور صلى الله عليه وسلم نے تلقین فرمائی ہے ، وہ یہ ہے :
اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ(صحیح مسلم)
اے اللہ ! میری صحیح ہدایت فرمایے اور مجھے سیدھے راستے پر رکھیے۔
اسی طرح ایک اور مسنون دعا ہے :
اَللّٰہُمَ اَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ (ترمذی)
اے اللہ ! جو صحیح راستہ ہے وہ میرے دل پر القا فرمادیجیے ، ان دعاوٴں میں سے جو دعا یاد آجائے اس کو اسی وقت پڑھ لے ، اور اگر عربی میں دعایاد نہ آئے تو اردو ہی میں دعا کر لو کہ اے اللہ !مجھے یہ کشمکش پیش آئی ہے ،آپ مجھے صحیح راستہ دکھا دیجیے ، اگر زبان سے نہ کہہ سکو تو دل ہی دل میں اللہ تعالی سے کہہ دو کہ یا اللہ ! یہ مشکل اور یہ پریشانی پیش آگئی ہے ، آپ صحیح راستے پر ڈال دیجیے جو راستہ آپ کی رضا کے مطابق ہو اور جس میں میرے لیے خیر ہو۔
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا ساری عمر یہ معمول رہا کہ جب کبھی کوئی ایسا معاملہ پیش آتا جس میں فوری فیصلہ کرنا ہوتا کہ یہ دو راستے ہیں ان میں سے ایک راستے کو اختیار کرنا ہے تو آپ اس وقت چند لمحوں کے لیے آنکھ بند کرلیتے ، اب جو شخص آپ کی عادت سے واقف نہیں اس کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ آنکھ بند کرکے کیا کام ہورہا ہے ، لیکن حقیقت میں وہ آنکھ بند کرکے ذرا سی دیر میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلیتے اور دل ہی دل میں اللہ تعالی سے دعا کر لیتے کہ یا اللہ ! میرے سامنے یہ کشمکش کی بات پیش آگئی ہے ، میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کیا فیصلہ کروں ، آپ میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کے نزدیک بہتر ہو ، بس دل ہی دل میں یہ چھوٹا سا اور مختصر سا استخارہ ہوگیا۔
حضرت ڈاکٹر عبد الحئی عارفی صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہر کام کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی طرف رجوع کرلے تو اللہ تعالی ضرور اس کی مدد فرماتے ہیں ، اس لیے کہ تمہیں اس کا اندازہ نہیں کہ تم نے ایک لمحہ کے اندر کیا سے کیا کرلیا، یعنی اس ایک لمحے کے اندر تم نے اللہ تعالی سے رشتہ جوڑ لیا ، اللہ تعالی کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرلیا ، اللہ تعالی سے خیر مانگ لی اور اپنے لیے صحیح راستہ طلب کرلیا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف تمہیں صحیح راستہ مل گیا اور دوسری طرف اللہ تعالی کے ساتھ تعلق قائم کرنے کا اجر بھی مل گیا اور دعا کرنے کا بھی اجر وثواب مل گیا ، کیونکہ اللہ تعالی اس بات کو بہت پسند فرماتے ہیں کہ بندہ ایسے مواقع پر مجھ سے رجوع کرتا ہے اور اس پر خاص اجروثواب بھی عطا فرماتے ہیں ، اس لیے انسان کو اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے ، صبح سے لے کر شام تک نہ جانے کتنے واقعات ایسے پیش آتے ہیں جس میں آدمی کو کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں ، اس وقت فورا ایک لمحہ کے لیے اللہ تعالی سے رجوع کر لو ، یا اللہ ! میرے دل میں وہ بات ڈال دیجیے جو آپ کی رضا کے مطابق ہو۔(اصلاحی خطبات)
الغرض استخارہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے اور بھلائی طلب کرنے کا مسنون ذریعہ ہے لہذا اس بات کی کوشش کی جائے کہ اس کی وہی اصل شکل اور روح برقرار رہے جو شریعت اسلام نے واضح فرمائی ہے ، محض سنی سنائی باتوں پر کان دھرنے کے بجائے حضرات علماء کرام سے رہنمائی حاصل کی جائے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح معنی میں سمجھ ،اس پر عمل کرنے والا اور عملا اس کو روئے زمین پر قائم کرنے والا بنائے ، آمین۔
* * *
وہ کتب جن سے استفادہ کیا گیا
۱- حجة اللہ البالغة                               حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ
۲- مظاہر حق                                    علامہ محمد قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ
۳-اصلاح انقلاب امت                      حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۴-اغلاط العوام                                حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۵-اشرف العملیات                           حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
۶- الکلام الحسن                                 حضرت مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ
۷-مجالس مفتی اعظم                            حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ
۸-دور حاضر کے فتنے اور ان کا علاج          حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ
۹- خطبات الرشید                              حضرت مولانا مفتی رشید احمد رحمہ اللہ
۱۰-تحفة المسلمین                               حضرت مولانا محمد عاشق الہی رحمہ اللہ
۱۱-رحمة اللہ الواسعة                           حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری صاحب مدظلہ
۱۲-اصلاحی خطبات                             حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ
***
---------------------------
ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء