کیا{786}بسم
الله الرحمن الرحيم کا قائم مقام ہے؟
الله کے نام
سے شروع کرتا ہے جو بہت ہی مہربان اور نہایت رحم والا ہے
یہ
بابرکت الفاظ ہر نیک کام شروع کرنے سے پہلے زبان سے ادا کرنا یا لکھنا بہت ہی اچھا اور ثواب کا کام ہے - قرآن
حکیم کو بھی "بسم الله الرحمن الرحیم" سے ہی شروع فرمایا گیا ہے اور ہر
سورۃ کے شروع میں "بسم الله الرحمن
الرحیم" تحریر ہے
، سوائے سورۃ توبہ کے اور اس کی کمی بھی سورۃ النمل میں بطور آیت مبارکہ کے {انه من سلیمان
وانه بسم الله الرحمن الرحیم} "سورۃ النمل آیت نمبر 30" نازل فرماکر پوری کی گئی ہے -
الله تعالی کے پاک نام سے ہر نیک کام کا
آغاز کرنا بذات خود ایک کار ثواب ہ اور قرآن
عظیم کے الفاظ ہونے کی وجہ سے "بسم
الله الرحمن الرحیم" کے حروف اکیس 21
ہیں ہر حروف پر دس نیکیاں "بسم الله
الرحمن الرحیم" پر 210 نیکیاں
عطا فرمانے کا ارشاد ربانی ہے ، لیکن اس ثواب سے محروم کرنے کے لیے "بسم
الله الرحمن الرحیم" کی جگہ 786 کے ہندسہ کو مسلمانوں میں رائج کیا گیا - مختلف خود ساختہ تخیلات کا سہارا لے کر مسلمانوں کو
"بسم الله الرحمن
الرحیم" پڑھنے
اور لکھنے کی برکت اور ثواب سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی اور اس میں مسلمان دشمن اور طاغوتی
طاقتوں کو حیرت انگیز حد تک کامیابی
ہوئی ہے - اب تقریبآ ہر تعلیم یافتہ ، کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ طبقہ زندگی اور مکتب فکر سے
تعلق رکھنے والا "بسم الله الرحمن
الرحیم" کے بجائے
786 کا ہندسہ لکھتا ہے اور اپنی دانست
میں وہ اسے "بسم الله الرحمن الرحیم" کے قائم مقام سمجھ کے ثواب اور برکت
حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ کر بڑا مسرور ہے
حالانکہ ثواب اور برکت کا حصول صرف اور صرف
ان عربی الفاظ کو زبان سے ادا کرکے یا لکھ کر ہی ہوسکتا ہے "بسم الله الرحمن
الرحیم" کے ثواب
اور برکت سے محروم کرانے والوں نے لوگوں کے اذہان میں یہ بات نقش کرنے کی سعئ نامشکور کی کہ اگر کسی خط ،
چھٹی یا کسی تحریذ میں "بسم الله الرحمن الرحیم" کے الفاظ لکھے جائیں اور
وہ ڈاک کے ذریعے ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجی
جائے اس صورت میں "بسم الله الرحمن الرحیم" کے پاک الفاظ کی بے ادبی ہوگی لہذا
ان پاک الفاظ کی جگہ 786 لکھ دیا جائے
اس طرح الفاظ کی بے ادبی بھی نہ ہوگی اور ثواب اور برکت بھی حاصل ہوجائے گی اور لوگوں نے بلاسوچے سمجھے
اس پر عمل شروع کردیا اور ہر خط ، چھٹی
یا تحریر پر "بسم الله الرحمن
الرحیم" کی جگہ 786 لکھنا باعث ثواب
سمجھا اور عربی الفاظ کو توہین اور بے ادبی سے بچاکر ثواب بھی کماکر دل ہی دل میں اپنے اس کارنامے پر خوش ہوتے
رہے حالانکہ اصل برکت ثواب اور نیکی سے
وہ بھی "بسم الله الرحمن الرحیم"
کے بجائے 786 لکھ کر محروم ہوگئے اگر
بے ادبی اور توہین والے نام نہاد دلیل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے بلاسوچے سمجھے
اسے قابل عمل مان لیا ہے جس خط یا چھٹی
کے شروع میں الله تعالی کے پاک نام سے ابتداء اس وجہ سے نہیں کی گئی کہ اس خط یا چھٹی کو سپرد ڈاک کرنے کے
بعد {لفظ} "الله" ، "رحمن" ، "رحیم" کے
مقدس نام کی بے ادبی ہوگی اس خط اور چھٹی میں مکتوب الیہ کا نام جو رحمت اللہ ، صبغت اللہ و سیف اللہ ،
محمد ، احمد ، رضوان اللہ وغیرہ تھا
مکتوب الیہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ نام لکھا گیا اس کے بعد السلام علیکم ورحمۃ اللہ یا صرف السلام
علیکم لکھا گیا - اس میں مکتوب الیہ کے
لیے دعائیہ الفاظ بھی جابجا تحریر کیے گئے - مثلا الله تعالی آپ کو خیریت سے رکھے یا آپ کو رزق حلال عطا
فرمائے وغیرہ - اس کے علاوہ تقریبآ ہر
خط یا مضمون میں اور بہت سے الفاظ اور جملے الله تعالی اور رسول پاک صلی الله علیه وسلم کا نام نامی
الفاظ یا دوسرے انبیاء کرام علیهم
السلام کے اسمائے مبارک تحریر کرنا پڑتے ہیں لیکن "بسم الله الرحمن الرحیم" لکھتے وقت ہمارا ذہن فورآ بے ادبی
کے خوف سے اس کی جگہ 786 کے لکھنے کا
حکم دیتا ہے - اگر خط یا چھٹی میں الله تعالی ، رسول الله صلی الله علیه وسلم یا انبیاء کرام علیهم
السلام وغیرہم کے ناموں کی توہین کا خدشہ ہے
تو پھر لکھنے والا کچھ بھی تحریر نہیں کرسکتا کیونکہ ایک مسلمان کی زبان اور قلم سے الله تعالی اور رسول
الله صلی الله علیه وسلم کے بابرکت
نام ضرور ادا ہونگے - اور چونکہ اس کے بغیر چارہ کار نہیں الله تعالی دلوں
کے بھید خوب جانتا ہے کہ لکھنے والے کی نیت بے ادبی یا توہین کی نہیں اس نے تو ثواب کی نیت سے لکھا
ہے اور الله تعالی کے پاک نام سے ابتداء کی ہے
لہذا الله تعالی ثواب عطا فرمائے گا
مگر
786 کے الفاظ رائج کرانے والوں نے یہ کام اتنے منظم طریقہ سے کیا کہ ہر شخص اصل قرآنی الفاظ ترک کرکے 786 کے
ہندسہ کو خطوط وغیرہ کے علاوہ بلند
عمارات ، بسوں ، ٹرکوں ، سوزوکیوں ، رکشاؤں حتی کہ مساجد پر بھی "بسم الله الرحمن الرحیم" کے بجائے {جہاں بے ادبی کا ذرہ بھی
احتمال نہیں}
786 کو لکھ یا لکھوادیا ہے اگر خط یا چھٹی میں قرآنی الفاظ کی بے ادبی کا خدشہ ہے تو بلند و بالا عمارات
وغیرہ پر تو اس کا احتمال ہی نہیں لیکن "بسم
الله الرحمن الرحیم" کے پاک اور بابرکت الفاظ کی جگہ جن لوگوں نے 786 کے ہندسہ کو رواج دیا ہے ان
کی چالاکی اور منصوبہ بندی کا یہ کمال ہے کہ
انہوں نے 786 کو "بسم الله الرحمن
الرحیم" کے قائم مقام ذہن نشین بلکہ اذہان و قلوب پر نقش کردیا ہے - اب ہر
شخص 786 کو "بسم الله الرحمن الرحیم" سمجھتا ہے اور اس طرح اسلام دشمنوں
کی شاطرانہ روش نے مسلمانوں کو ثواب
اور برکت سے محروم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے
اسلام
ایک مکمل دین ہے الله تعالی نے قرآن مجید میں ہمیں زندگی گزارنے کے آداب بتائے ہیں اور جناب رسول الله صلی
الله علیه وسلم نے اپنے مقدس فرامین کے
ذریعے عملی نمونہ پیش کرکے ان کی مکمل وضاحت فرمادی نمبر {01} ان اسلامی آداب میں سے ایک ادب
یے بھی ہے کہ مسلمان اپنے ہر کام میں
الله تبارک تعالی کا نام لے - مسلمانوں کو ہر اہم کام "بسم الله الرحمن الرحیم" سے شروع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے
کیونکہ اس میں برکت ہوتی ہے تحریر میں بھی جناب رسول الله صلی
الله علیه وسلم کی یہی سنت ہے کہ "بسم الله
الرحمن الرحیم" سے شروع
کیا جائے چناچہ رسول الله صلی الله علیه وسلم
نے مختلف بادشاہوں اور سرداروں کو جو مکتوب مبارک تحریر فرمائے ، ان سب
میں "بسم الله الرحمن الرحیم" لکھی
گئی جیسا کہ احادیث مبارکہ میں وہ
خطوط مکمل طور پر درج کیے گئے ہیں
نمبر
{02} کچھ لوگوں نے "بسم الله الرحمن الرحیم" کے بجائے 786 کا ہندسہ اختیار کرلیا ہے اور عوام میں یہی عدد رائج
ہوگیا ہے حالانکہ شریعت اسلامیہ میں اعداد کو کبھی الفاظ کا
بدل تسلیم نہیں کیا گیا البتہ یہو د میں یہ چیز پائی جاتی تھی کہ وہ اعداد
کو اہمیت دیتے اور حروف کو اعداد کے طور پر
استعمال کرتے تھے - یہود و نصاری میں 7 اور 14 کے عدد کو بہت اہمیت حاصل ہے اس لیے ان کی مذہبی کتابوں
میں ساتویں سال کو خاص اہمیت حاصل ہے
اور ان کے لیے خاص احکام موجود ہیں اس بناء پر حضرت عیسی علیه السلام کے نسب نامہ کو حضرت ابراہیم علیه
السلام سے لے کر حضرت مسیح علیه السلام تک
چودہ چودہ ناموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے مسیحی علماء اس کی ایک وجہ بتاتے ہیں کہ چودہ کا عدد
سات کا دگنا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ "داؤد" جسے عبرانی زبان میں --دود-- کی صورت میں لکھا جاتا ہے
اس کے اعداد 14 ہیں د 4 | و 6 | د 4 = {14} --دود-- اس سے وہ
یہ ثابت کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیه
السلام حضرت داؤد علیه السلام کے روحانی وارث ہیں ہندوؤں کے معبود "کرشن" کے نام کا نعرہ "ہرے کرشنا" کے اعداد کا
مجموعہ بھی 786 ہے - اس سے کیا نماز کے
اعداد نکال کر جھٹ پٹ نماز پڑھی
جاسکتی ہے؟ ہرگز نہیں
نمبر
{03} اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساب جمل یعنی حروف و اعداد کے بانی غیر مسلم اہل کتاب ہیں - مسلمانوں کو اس سے
کوئی تعلق نہیں - حروف "مقطعات" جو سورتوں کے شروع میں ہیں اور الگ
الگ حرف کرکے پڑھے جاتے ہیں ان کے
متعلق کتب تفسیر میں یہ روایات موجود ہیں کہ یہ حروف تو ان کا خیال ہے کہ اس سے مراد مدت ہے کہ اس نبی پاک کی
نبوت اتنا عرصہ رہے گی چنانچہ ا 1 | ل
30 | م 40 = {71} "الم" - "الم"
سن کر ایک یہودی عالم نے کہا کہ مسلمانوں
کا نبی تو محض اکہتر 71 سال تک باقی رہے گا جب اسے بتایا گیا کہ قرآن میں "المص" بھی ہے اس نے کہا کہ 161 سال ہوگئے ا 1 | ل 30 | م 40 | ص 90 = {161} "المص" پھر اسے بتایا گیا کہ قرآن
مجید میں "الر" بھی ہے تو اس نے کہا یہ تو اور زیادہ ہوگئے ا 1 | ل 30 | ر 200 = {231} "الر" پھر جب اس کے سامنے "المر" پیش کیا گیا تو اور زیادہ پریشان ہوگیا کیونکہ یہ 271
بنتے ہیں آخر کہنے لگا کہ مسئلہ الجھ گیا
ہے ہمیں معلوم نہیں ان کا مقصد کیا ہے ، ان کا کیا مقصد ہے؟ {جب کہ ان حروف کی حقیقت کو الله تعالی ہی بہتر
جانتا ہے اور یہی مؤقف درست اور حقیقت
پر مبنی ہے}
نمبر
{04} اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف اور اعداد کو ایک دوسرے کا بدل قرار دینے کا تصور یہودیوں کے طرف سے
آیا ہے لہذا مسلمانوں کو اس سے پرہیز
کرنا چاہئے - علاوہ ازیں مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں بھی اعداد کو الفاظ کا بدل سمجھنے کا تصور موجود نہیں
تھا - اگر کسی کا نام انور ہے تو اس کو
275 صاحب کہہ کر نہیں بلایا جاتا - نہ قریشی صاحب 260 کہلانا پسند کریں گے اگر مولانا صاحب کے بجائے 128
صاحب کہا جائے تو مولانا یقینآ
ناراض ہوجائینگے - پھر کیا وجہ ہے کہ الله تعالی کے مقدس نام کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے؟
نمبر
{05} اس کے علاوہ ایک عدد ضروری نہیں کہ ایک ہی عبارت کو ظاہر کرے بلکہ ایک سے زیادہ عبارتوں کے مجموعی عدد
کے بھی مساوی ہوسکتا ہے مثلآ یہی عدد
786 جسے "بسم الله الرحمن الرحیم"
کا بدل قرار دیا جاتا ہے - ہندوؤں کے معبود کرشن کا نعرہ {ہرے
کرشنا} کے اعداد کا مجموعہ بھی ہے
ھ 5 | ر 200 |
ی 10 | ک 20 | ر 200 | ش 300 | ن 50 | ا 1 = {786} "ھری کرشنا"
نمبر
{06} یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر اعداد الفاظ کا بدل ہیں تو کیا ہم اپنے معاملات میں ان کا اس لحاظ سے
استعمال قبول کرسکتے ہیں ایک شخص آپ سے
کوئی واقعہ بیان کرتا آپ سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے آپ اسے کہتے ہیں الله کی قسم کھاؤ وہ کہتا ہے
چھیاسٹھ کی دو سو میں سچ کہہ رہا ہوں کیا
آپ تسلی م کرلیں گے کہ اس نے الله کی قسم کھائی ہے؟ لہذا اس کی باپ پر
اعتبار کرلیا جائے اس طرح نکاح کے موقع پر
دولہا کہے میں نے 138 کیا تو یہ تسلیم کیا جائے
گا کہ اس نے قبول کرلیا؟ لہذا نکاح منعقد ہوگیا یا کوئی اپنی بیوی سے کہے جا تجھے 140 ہے تو کیا اسے
طلاق سمجھا جاسکتا ہے؟ یقینآ کوئی سمجھدار
آدمی اس منطق کو قبول نہیں کرسکتا
نمبر
{07} پھر کیا وجہ ہے کہ جس چیز کو اپنے لیے پسند نہیں کرتے اسے الله تعالی کے مقدس نام کے لیے اور جناب رسول
الله صلی الله علیه وسلم کے اسم مبارک کے
لیے پسند کریں - ایک مؤمن کے لیے اس کا تصور بھی ناقابل قبول ہے - جہاں تک "بسم الله
الرحمن الرحیم" کے قائم مقام ہندسہ 786 کی تعداد کا تعلق ہے حروف ابجد کی رو سے یہ بھی صحیح
نہیں اس لیے کہ"بسم الله الرحمن الرحیم" کے ہندسے حروف ابجد کی رو سے 788 عدد
ہوتے ہیں 786 ہوں یا 788 ثواب سے
تو بہرحال محرومی ہے اگر کوئی شخص ایک سے لے کر ایک کروڑ تک بھی ہندسے لکھ دے یا پڑھ دے تو قرآنی الفاظ کے
مقابلہ میں ہندسے لکھنے والے یا پڑھنے
والے کو ایک ذرہ بھی نیکی نہیں مل سکتی - کیونکہ ثواب کا وعدہ تو عربی الفاظ ادا کرنے پر ہے اپ آپ کی
خدمت میں "بسم الله الرحمن الرحیم" کی حروف ابجد کے حساب سے تجزیہ پیش
کیا جاتا ہے
"بسم الله الرحمن الرحیم" کے ہندسے حروف ابجد کے حساب سے 788
ہوتے ہیں اور 786 کے حساب سے "یا علی مولا علی
امیر المؤمنین" کے الف ظ بنتے ہیں بسم الله
الرحمن الرحیم کا حروف ابجد کی رو سے تجزیہ
ب 2 | س 60 |
م 40 | الف 1 | ل 30 | ل 30 | الف 1 | ھ 5 | الف 1 | ل 20 | ر 200 | ح 8 |
م 40 | الف 1 | ن 50 | الف 1 | ل 30 | ر 200 | ح 8 | ی 10 | م 40 = {788}
"بسم الله الرحمن الرحیم"
اب
786 کے ہندسون کے الفاظ ملاحظہ فرمایئے
ی 10 | الف 1
| ع 70 | ل 30 | ی 10 | م 40 | و 6 | ل 30 | الف 1 | ع 70 | ل 30 | ی 10 |
الف 1 | م 40 | ی 10 | ر 200 | الف 1 | ل 30 | م 40 | و 6 | م 40 | ن 50 |
ی 10 | ن 50 = {786} "یا علی مولا علی امیر المؤمنین"
علی 110 |
امیر المؤمنین 478 | وصی محمد 198 = 786 {امیر المؤمنین علی حضرت رسول
الله صلی الله علیه وسلم کا وصی یعنی خلیفہ بلافصل}
نوٹ = بالاتفاق خلیفہ بلافضل حضرت ابو بکر صدیق رضی الله عنه ہے
اور حضرت علی رضی الله چوتھے خلیفہ ہے
ان
الفاظ کے ہندسے بھی 786 ہوتے ہیں یعنی لکھنے والا اپنی دانست میں 786 لکھ کر "بسم الله الرحمن الرحیم" کے قائم مقام سمجھ رہا ہے حالانکہ وہ {یا علی مولا علی
امیر المؤمنین} لکھ رہا
ہے اگر کسی عمارت ، خط یا مضمون مسجد ٹرک
یا بس پر 786 کا عدد لکھا ہوگا تو اس کا مطلب ہے کہ لکھنے والے نے {یا
علی مولا علی امیر المؤمنین} لکھا ہے اگرچہ یہ لکھنا یا لکھوانا مسلمانوں کے نزدیک قطعآ ناپسند اور ناجائز
ہو لیکن 786 کے کوڈ ہندسہ میں لاکھوں
کروڑوں مسلمان {یا علی مولا علی امیر
المؤمنین} اور {علی امیر المؤمنین وصی
محمد} کے الفاظ
اپنی خطوط اپنی تحریروں اپنی مسجدوں اپنے مضامین اور اپنی عمارات وغیرہ پر لکھ رہے ہیں اور دل ہی دل
میں بڑے مسرور ہیں کہ ہم نے "بسم الله الرحمن الرحیم" کی برکت حاصل کرلی ہے
بسم
الله الرحمن الرحیم کے لکھنے پڑھنے کا ثواب سے محرومی اور اس پر سمجھنا کہ ہمیں ثواب مل گیا ہے اور ہم نے
صحیح راستہ اختیار کیا ہے کتنی بڑی
گمراہی ہے جس میں چھوٹے بڑے عالم غیر عالم ، تعلیم یافتہ غیر تعلیم یافتہ سب مبتلا ہیں - اور ہمیں اس محرومی
کا احساس بھی نہیں - "سورۃ الکہف آیت 106 میں ہے کہ ! یہی وہ لوگ ہیں
جن کی دنیا میں کی کرائی محنت گئی گزری
ہوئی اور وہ {بوجہ جہل} اس خیال میں ہیں کہ وہ اچھا کام کررہے ہیں.
صحیح
العقیدہ علمائے کرام ، پروفیسرز ، ڈاکٹرز ، انجینئرز ، ادیب ، شاعر ،
دانشور صحافی صاحبان اور عوام الناس سے میری گزارش ہے کہ ہندسوں کا لکھنا قطعآ ترک کردیں اگر کسی جگہ "بسم الله الرحمن الرحیم" لکھنے سے
اس کی بے ادبی کا احتمال ہو وہاں کچھ نہ
لکھا جائے زبان سے ہی پڑھ لے تاکہ اگر "بسم الله الرحمن الرحیم" لکھنے کا
ثواب نہ ملا تو پڑھنے کا مل جائیگا
اور 786 لکھنے کے گناہ عظیم سے اپنے آپ کو کم از کم بچایا جاسکے گا - الله تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صراط
مستقیم پر چلائے اور جو غلط باتیں
ہمارے گرد و پیش اور ہماری اپنی ذات کے اندر رواج پاگئی ہیں ان سے ہمیں بچنے کی توفیق نصیب فرمائے - اور حق
بات کو کہنے ، سننے کا جذبہ ہمارے
اندر پیدا کرے جب کسی بات کا حق ، سچ ہونا ثابت ہوجائے پھر اس کے خلاف کوئی بادشاہی کتنے ہی عرصے سے کسی
معاشرے یا کسی طبقہ میں رائج یا راسخ
ہوچکی ہو اسے ترک کردینا ہے صراط مستقیم ہے
اقتباس :
جامعہ عثمانیہ پشاور کا ترجمان
ماہنامہ
"العصر" پشاور ص 37 تا 43 مئی 2011 - جمادی
الثانی ۱۴۳۲ہجری
از : مولانا
امجد سعید قریشی خطیب جامع مسجد عثمان غنی ڈب نمبر 1 مانسہرہ
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء