قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 2 ، جلد: 96 ‏، ربیع الاول 1433 ہجری مطابق فروری 2012ء



قرآن مجید کے حقوق اور ہماری ذمہ داریاں


از:    فضل الرحمن اصلاحی فاضل دیوبند

اسکالر، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ


عظمت قرآن بہ زبان قرآن :- قرآن کریم کا تعارف جتنا عمدہ خود قرآن سے ہوسکتا ہے اور اس کی عظمت شناسی خود اس کے ذریعے جتنے بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے ، کسی اور ذریعہ سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے ،آئیے ذرا قدرے تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیں کہ قرآن کریم بذاتِ خود اپنا تعارف کس انداز سے پیش کرتا ہے ۔ چنانچہ سورہٴ ھود میں خود باری تعالی فرماتے ہیں : ”المرٰ کِتٰبٌ اُحْکِمَتْ آیٰتُہ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیْمٍ خَبِیْر“(المرٰ) (یہ) وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم ہیں ، پھر تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ، بڑے حکمت والے ،بہت خبر رکھنے والے (اللہ) کی طرف سے ۔(۱)
سورة الشعراء میں قرآن کا تعارف یوں رقم ہے ”وَاِنَّہ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ العالمین o نَزَلَ بِہ الرُّوْحُ الأمِیْنُ o عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ o بِلِسَانٍ عربیٍ مبین o ( اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ (قرآن ) پروردگار عالم کا نازل فرمایا ہوا ہے، اسے امانت دار فرشتے نے (اے محمد ) تمہارے دل پر اتارا ہے تاکہ (تم لوگوں کو عذابِ آخرت) سے خبردار کرنے والے بنو، صاف ستھری عربی زبان میں) ۔(۲)
مندرجہ بالا آیت کے ضمن میں الشیخ محمود بن احمد الدوسری رقم طراز ہیں : ” اللہ جل جلالہ نے قرآن کریم نازل فرمانے کی نسبت اپنی طرف صرف اسی آیت میں نہیں کی؛ بلکہ پچاس یا اس سے بھی زیادہ آیتوں میں کی ہے․․․․․اور یہ اللہ کا کلام ہے، کلام کرنے والے کا حسنِ کمال، کلام کی سچائی کی دلیل ہوتا ہے ، اس طرح اس کی عظمت و رفعت کی شان بھی واضح ہوتی ہے؛ کیوں کہ اسے نازل فرمانے والا بڑی عظمتوں والا ہے، مزید برآں قرآن کے شرف اس کی قدر ومنزلت اور عظمت ہی کی وجہ سے امت مسلمہ کی شان بلند ہوتی ہے “ (۳)۔
سورہٴ یوسف میں قرآن اپنا تعارف یوں پیش کرتا ہے : ”مَا کَانَ حَدِیْثاً یُفْتَریٰ وَلکن تَصْدِیْقَ الذیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کلِّ شَیْءٍ وَہُدَیً وَرَحْمَةً لِقَوْمٍ یُوٴمِنُون o“(۴)
ایسے ہی سورہٴ یوسف میں ایک جگہ اور ہے ، ”نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ أَحْسَنَ القَصَصِ بِمَا أوْحَیْنَا الَیْکَ ہَذا القُرْآنَ وَانْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہ لَمِنَ الغٰفلین“ (اور ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہت اچھا بیان اس واسطے کہ بھیجاہم نے تیری طرف یہ قرآن اور تو تھا اس سے پہلے البتہ بے خبروں میں )(۵) اور سورہٴ مائدہ میں ہے قَدْ جَآئَکُمْ مِنَ اللّٰہِ نُورٌ وَّ کِتَابٌ مبینo(۶)
سورہٴ فرقان میں ذکر ہے ”تَبَارَکَ الذی نَزَّلَ الفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہ لِیَکُوْنَ للعالَمِیْن نَذِیْراً“o(۷)
سورہ بنی اسرائیل میں اس کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے ”انَّ ہٰذا القرآنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ أقْوَمُ“( بلا شبہ یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے )(۸)
اسی طرح سورئہ یونس میں قرآن مجید کو رحمتِ خدا وندی سے موسوم کیا گیا ہے ، جیسا کہ مذکور ہے ، ”قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُواط ہُوَخَیْرٌ مِمّا یَجْمَعُونo یہ صرف اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے کہ یہ نعمت تمہیں نصیب ہوئی ، پس یہ وہ چیز ہے، جس پر لوگوں کو چاہیے کہ خوشیاں منائیں ، جتنی بھی چیزیں دنیا میں لوگ سمیٹتے ہیں، قرآن کی نعمت ، ان سب سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہے (۹)
 رمضان کا مکمل مہینہ قرآن مجید کی نعمت سے منسوب کردیا گیا ، چنانچہ ارشاد ربّانی ہے ”شَہْرُ رَمَضَانَ الذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ القُرْآنَ“۔ محترم خرم مراد صاحب مرحوم اس کی دل نشیں تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: ”قرآن مجید سے زیادہ بڑی کوئی نعمت ایسی نہیں ہے ، جو خوشی و مسرت اور جشن کی مستحق ہو ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہماری خوشی کے سب سے بڑے دن کو قرآن مجید کے ساتھ وابستہ کردیا ہے “۔ (۱۰)
قرآن کریم کی عظمت و جامعیت کو سورئہ مائدةمیں بڑے ہی بلیغ پیرایے میں بیان کیا گیا ہے، جس کو سن کر ایک یہودی نے امیرالمومنین حضرت عمر سے کہا تھا کہ تمہاری کتاب میں ایک آیت ایسی نازل ہوئی ہے ، اگر یہ آیت ہمارے یہاں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اس دن یوم عید اور جشن کا دن بنالیتے ، اس پر حضرت عمر نے اس سے اس آیت کے متعلق دریافت فرمایا، وہ کون سی آیت ہے؟ اس یہودی نے جواب دیا سورئہ مائدة کی درج ذیل آیت:- ” اَلْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الاسْلاَمَ دِیْناً“ (آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کیا)۔
مولانا امین احسن اصلاحی قرآن کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ”قرآن مجید کو ایک اعلیٰ اور بر تر کلام مان کر اس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، اگر دل میں قرآن مجید کی عظمت و اہمیت نہ ہو تو آدمی اس کے حقائق و معارف کے دریافت کرنے پر محنت صرف نہیں کر سکتا“۔ (۱۱)
اے کاش! آج امت مسلمہ کو اس کا احساس ہوجاتا کہ قرآن مجید کی شکل میں روئے زمین پر سب سے بڑی نعمت جو اس کو ودیعت کی گئی ہے، یہی کتاب عظیم ہے ۔
 ع       اے کاش کہ ہوجاتی قرآن سے شناسائی
عظمتِ قرآن بہ زبان صاحب قرآن :- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں تو قرآن کے فضائل اور اس کی اہمیت کو مختلف پیرایے میں بیان کیا ہے ، یہاں پر اس سلسلے میں چند احادیث مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔
”کِتَابُ اللّٰہِ ہُوَ حَبْلُ اللّٰہِ المَمْدُوْدِ مِنَ السَّمَاءِ الٰی الأرْضِ“(۱۲)
اسی طرح سے ایک دوسرے موقع پر آپ … کا ارشاد ہے، قرآن کی تلاوت اور اس کا مذاکرہ نزول سکینت ، رحمت کا باعث بنتا ہے ۔
”مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِیْ بَیْتٍ مِنْ بُیُوتِ اللّٰہِ یَتْلُوْنَ کِتَابَ اللّٰہِ یَتَدَارَسُوْنَ بَیْنَہُمْ الاَّ نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَةُ وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْہُمْ المَلائکةُ وَذَکَرَہُمُ اللّٰہُ فِیْمَنْ عِنْدَہ“۔(۱۳)
حضرت علی کے حوالے سے ایک حدیث نقل کی جاتی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اس امت کے لیے سب سے عمدہ دو ا قرآن مجید ہے ۔ ”عَنْ عَلِیٍ قال: قالَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خَیْرُالدَّواءِ القُرْآنُ ۔“
آج ا س امت کی مثال اس پیاسے کی سی ہوگئی ہے، جس کے پڑوس میں میٹھا چشمہ بہہ رہا ہو؛ مگر وہ اس چشمے سے سیراب ہونے کے بجائے گندے پانی سے اپنا پیٹ بھرنا چاہتا ہے ۔
اس موقع پر پیارے نبی کی اس وصیت کو ہمہ وقت یا درکھنے کی ضرورت ہے ”اِسْمَعُوا منّی تَعَیَّشُوا“ (میری باتیں غور سے سنو ، یہ باتیں غور و خوض سے سنوگے تو پھلتے پھولتے رہوگے )اور اسی موقع پر آپ نے بڑی دل سوزی سے فرمایا تھا ”تَرَکْتُ فِیْکُمْ أمْرَیْنِ مَا انْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضلّوا کتابَ اللّٰہِ وَسُنَّتِی“ (۱۴) وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جو ان ارشادات پر کان دھرتے ہیں اور قرآن مجیدکی خدمت میں اپنی زندگیاں قربان کر رہے ہیں، وہ اس بشارت میں شامل ہیں۔ ”خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ القُرآنَ وَعَلَّمَہ“ (تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن مجید سیکھے اور دوسروں کو سکھائے )۔
نعمت ِ قرآن اورتعمیرِ سیرت:- قرآن مجید میں کلام الٰہی کو نعمت کے طور پرکئی جگہ بیان کیا گیاہے ۔
مثلاً -”فَذَکِّرْ فَمَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِکَاہِنٍ وَلاَ مَجْنُون“
اور سورة القلم میں یوں ذکر کیا گیا ۔ ”مَا أنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْن“ o۔
قرآن مجید جیسی بیش بہا کتاب ہدایت اس امت کو عطا کی گئی تو اس کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے۔ شکر کے معنی یہاں پر یہ ہے کہ قرآن مجید کے حقوق ادا کئے جائیں ۔
 قرآن کریم کے بنیادی حقوق درج ذیل ہیں :
۱۔ قرآن پر ایمان لانا ۲۔ قرآن کا پڑھنا ۳۔ قرآن کا سمجھنا ۴۔ قرآن پر عمل کرنا ۵۔ قرآن کی تبلیغ کرنا ۔
زوال امت کا اصل سبب و اصلاح معاشرہ :- اگر تاریخ سے سوال پوچھا جائے کہ قرآن مجید جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے یہ امت کیوں رو بہ زوال ہے ؟ تو تاریخ ہمیں اس کا جواب دے گی کہ”انَّ اللّٰہَ لاَیُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنْفُسِہِمْ“۔ ”اللہ تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب کہ وہ خود( اپنے ارادے و اختیار سے )اپنے حالات و نفسیات نہ بدل لیں “۔
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی نے مالٹا کی تنہائیوں میں جو غور و خوض کرکے اس بیمار ملت کے لیے دوا تجویز کی تھی اے کاش اس ملت نے اگر اس نصیحت پر عمل کیا ہوتا تو شاید آج حالات اتنے ناگفتہ بہ نہ ہوتے ، مفتی محمدشفیع عثمانی صاحب اس سلسلے میں شیخ الہند کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیو ں میں اس پر غور کیا ہے کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ، ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا اور دوسرا ان کے آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی ، اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں گا کہ قرآن کریم کو لفظاً و معناعام کیا جائے اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے “(۱۵) آگے مفتی محمد شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں ” ․․․․ حضرت نے جو باتیں فرمائیں ہیں، اصل میں وہ دو نہیں ایک ہی ہے ․․․․اس لیے ہمارے اختلاف میں شدت اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا اس لیے کہ قرآن مرکز تھا اور جب وہ اس مرکز سے دور ہوتے چلے گئے تو ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے چلے گئے“ ۔ (۱۶)
یہ بالکل سادہ سی بات ہے واقعی اگر قرآن پر کسی درجہ میں عمل کیا جاتا تو یہ خانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی ۔آج سے چند سال پہلے مسلم محلوں سے گزرنے والا یہ لازماً محسوس کرلیتاتھا کہ یہ مسلم محلہ ہے اور اس علاقے اور محلے میں قرآن کی برکت سے الگ ہی قسم کی رونق ہوا کرتی تھی ۔ ” آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں گذرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اسے ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے، لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی ، اب تو تلاوت بھی نہیں ہوتی ، غور و فکر اور تدبر کا تو سوال ہی نہیں ، کون سیکھے اور کون پڑھے ؟ عربی سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو تو ہم سیکھیں ، ہم انگریزی پڑھیں گے اور ایسی پڑھیں گے کہ انگریزوں کو پڑھادیں؛ لیکن عربی سیکھنے کے لیے کوئی بھی وقت نکالنے کے لیے تیار نہیں ۔
خلاصہ بحث
یوں تو آج پوری دنیا کے مسلمان ظلم و جور کی چکی میں پس رہے ہیں اور زبان حال سے یہ فریاد الٰہی کر رہے ہیں :
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
اس فریاد سے پہلے ہمیں خود بحیثیت ملت یہ جائزہ لینا چاہیے کہ اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات ہماراساتھ کیوں نہیں چھوڑ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ رب العزت کی سنت تو یہ رہی ہے۔ ”وَمَا کَانَ رَبُّکَ لِیُہْلِکَ القُریٰ بِظُلْمٍ وَأہْلُہَا مُصْلِحُون“o (القرآن)
اس آیت کی روشنی میں ہمارا محاسبہ ہمارے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کر ے گا کہ قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے اس طرح کے حالات ہمارا مقدر بن چکے ہیں ،لہٰذا سچے دل سے ہمیں پھر قرآن کے دامن میں پناہ ڈھونڈنی چاہیے ۔ اس کے بغیر اور کوئی علاج کارگر نہیں ہوسکتا ، امام مالک جیسے بیدار مغز محدث و فقیہ نے اس بیمار ملت کا علاج یہی قرار دیا تھا ۔
”لَنْ یَصْلَہَ ہَذِہ الأمَّةُ الاَّ بِمَا صَلُحَ بِہ أوَّلُہا“
”ان حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف رجوع کیا جائے، ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی، اور ہم عزت وسربلندی حاصل نہیں کرسکتے جب تک کہ اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے،ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے، ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے ، اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے کھلے گا۔“(۱۷)
مراجع:
۱۔       سورہ ھود آیت نمبر۱
۲۔        سورة الشعراء آیت نمبر ۱۹۲ تا ۱۹۵
۳۔       ماہنامہ شمس الاسلام ، بھیرہ (پاکستان)قرآن نمبر ص ۱۱ جلد ۸۶ ش ۸۔۷(جولائی اگست ۲۰۱۱ء)
۴۔       سورہٴ یوسف آیت نمبر ۱۱۱
۵۔        سورہ یوسف آیت نمبر ۳
۶۔       سورة المائدة آیت نمبر ۱۵
۷۔       سورة الفرقان آیت نمبر ۱
۸۔       سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر ۹
۹۔        سورہ یونس آیت نمبر ۵۸
۱۰۔      قرآن کا پیغام از خرم مراد مرحوم صاحب ص۳۰،اسلامک بک فاوٴنڈیشن دہلی
۱۱۔       مبادی تدبر قرآن ، از مولانا امین احسن اصلاحی ص ۱۷، فاران فاوٴنڈیشن لاہور
۱۲۔      سنن الترمذی حدیث نمبر ۳۷۸۸
۱۳۔     سنن ابی داوٴد حدیث نمبر ۱۴۵۵
۱۴۔     خطبہٴ حجة الوداع ، مشکوٰة ص ۱۹ ، دیوبند سہارن پور
۱۵۔        وحدتِ امت از مفتی شفیع صاحب مرحوم ص ۴۰۔ ۳۹
۱۶۔       ایضاً ص ۴۱
۱۷۔      عظمت قرآن ص ۲۵
***

شبِ براءت کے فضائل اور اس رات کی بدعات و رسوم

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 6 ‏، جلد: 96 ‏، رجب 1433 ہجری مطابق جون 2012ء



شبِ براء ت کے فضائل اور اس رات کی

بدعات ورسوم

از: مولانامحمد راشد ڈسکوی استاذ جامعہ فاروقیہ، کراچی


          کچھ عرصہ بعدرمضان المبارک کی آمد ہو گی ،چشمِ تصور میں ایک بار پھر آنکھیں ان مناظر سے ٹھنڈی ہونے کو بے تاب ہیں کہ پانچوں نمازوں کے وقت موٴذن کی پکار پر لبیک کہنے والے جوق درجوق خانہء خدا کی طرف لپکے چلے آتے ہیں،جہاں ایک طرف ہر نماز سے پہلے اور نماز کے بعدمساجد میں خلق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد قرآن حکیم کی تلاوت سے لطف اندوز ہوتی نظر آتی ہے، تودوسری طرف بہت سے افراد نوافل کی ادائیگی میں مشغول نظر آتے ہیں،اور اس کے ساتھ ساتھ ذکر واذکار سے اپنے سینوں کو منور کرنے والے اور اپنے ربِّ عزَّوجلَّ کے حضور الحاح وزاری کے ساتھ سسکتے ہوئے مناجات میں مشغول افراد کی تعداد بھی بہت بڑی ہوتی ہے۔
شعبان المعظم میں سرکار ِدو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول:
          اس برکتوں والے ماہِ مبارک کے آنے سے قبل ”شعبان المعظم“میں ہی سرکارِ دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے استقبال کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ،آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں اضافہ ہو جاتا،نہ صرف خود بلکہ اس فکر میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو بھی شریک فرماتے تھے۔
          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ”رمضان المبارک “کے ساتھ اُنس پیدا کرنے کے لیے ”شعبان المعظم“ کی پندرہویں رات اور اس دن کے روزے کی ترغیب دی ہے اوراس بارے میں صرف زبانی ترغیب پر ہی اکتفاء نہیں فرمایا؛ بلکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر خود اس میدان میں سب سے آگے نظرآتے ہیں ؛چنانچہ اس ماہ کے شروع ہوتے ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات میں غیر معمولی تبدیلی نظر آتی جس کا اندازہ ام الموٴمنین ،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، آپ فرماتی ہیں:(ما رأیتہ في شھرٍ أکثر صیاماً منہ في شعبان) کہ”میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینے میں کثرت سے (نفلی)روزے رکھتے نہیں دیکھا“(صحیح مسلم ،رقم الحدیث: ۲۷۷۷)،حضور پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کے ”شعبان المعظم “میں بکثرت روزہ رکھنے کی وجہ سے اس مہینے میں روزہ رکھنے کو علامہ نووی رحمہ اللہ نے مسنون قرار دیا ہے،فرماتے ہیں ”ومن المسنون صوم شعبان“(المجموع شرح المہذب:۶/۳۸۶)۔
          مذکورہ حدیث ِ عائشہ رضی اللہ عنھا اور دیگر بہت سی احادیث سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علیہ الصلاة السلام کا یہ عمل اور امت کو ترغیب دینا استقبال رمضان کے لیے ہوتا تھا،جس کی طرف حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ”اب خاص اس روزہ کی حکمت بھی سمجھیے، میرے نزدیک یہ ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان سے پہلے نصف شعبان کا روزہ رمضان کے نمونہ کے لیے مسنون فرمایا ہے؛ تاکہ رمضان سے وحشت وہیبت نہ ہو کہ نہ معلوم روزہ کیسا ہو گا ؟اور کیا حال ہو گا؟ اس لیے آپ نے پندرہ شعبان کا روزہ مقرر فرمادیا کہ اس دن کا روزہ رکھ کر دیکھ لو ؛چونکہ یہ ایک ہی روزہ ہے اس لیے اس کی ہمت آسانی سے ہوجاتی ہے،جب وہ پورا ہو گیا تو معلوم ہو جاتا ہے کہ بس رمضان کے روزے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس تاریخ میں رات کی عبادت بھی تراویح کا نمونہ ہے، اس سے تراویح کے لیے حوصلہ بڑھتا ہے کہ جب زیادہ رات تک جاگنا کچھ بھی معلوم نہ ہو اتو تراویح کے لیے ایک گھنٹہ زیادہ جاگنا کیا معلوم ہو گا ؟! بس یہ تو اعانت بالمثل علی المثل ہوئی۔(وعظ”الیسر مع العسر“بعنوان نظامِ شریعت:۶/۵۲۴،مکتبہ اشرف المعارف ملتان)“۔
          اب ایک نظر اس ماہ ِ مبارک کی پندرہویں شب پر بھی ڈال لی جائے جس کے بارے میں بھی بہت کچھ احادیث میں مذکور ہے،جو آگے بالتفصیل آرہی ہیں،زمانہٴ ماضی اور موجودہ زمانے کو دیکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِس رات کے بارے میں لوگ اِفراط وتفریط کا شکار نظر آتے ہیں، اس لیے اس رات کے فضائل ،اس رات کے فضائل سے محروم ہونے والے افراداور اس رات کوہونے والی مروج بدعات پر تفصیل سے روشنی ڈالی جائے،سب سے پہلے اس رات کے بارے میں جناب ِرسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرمودات ذکر کیے جائیں گے اس کے بعد جمہور اسلاف وفقہائے امت، اہلسنّت والجماعت کے نظریات واقوال ذکر کیے جائیں گے؛تاکہ اس رات کے بارے میں شریعت کا صحیح موقف سامنے آجائے۔
شب ِبراء ت کے بارے میں بنی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین:
          (۱) عن”أبي بکر الصّدیق“رضي اللہ عنہ عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(ینزل اللہ إلی السماء الدنیا النصف من شعبان، فیغفر لکل شيء إلا رجل مشرک أو رجل في قلبہ شحناء) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۴۶“:۵/۳۵۷،مکتبة الرشد)
          ترجمہ:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ” آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل پندرہویں شعبان کی رات میں آسمان ِ دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق)نزول ِاجلال فرماتے ہیں اور اس رات ہر کسی کی مغفرت کر دی جاتی ہے،سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے کے، یا ایسے شخص کے جس کے دل میں بغض ہو“۔
          (۲) فقال”رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم“:(أتدرین أي لیلةھذہ؟) قلت: ”اللہ ورسولہ أعلم“ قال:(ھذہ لیلة النصف من شعبان،إن اللہ عزوجل یطلع علی عبادہ في لیلة النصف من شعبان، فیغفر للمستغفرین ویرحم المسترحمین ویوٴخر أھل الحقد کما ھم) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۴“:۵/۳۶۱،مکتبة الرشد)     
          ترجمہ:”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا (اے عائشہ )جانتی بھی ہو یہ کونسی رات ہے؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، فرمایا یہ شعبان کی پندرہویں شب ہے،اللہ عزوجل اس رات اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں ، اور بخشش چاہنے والوں کی مغفرت فرماتے ہیں،رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں، اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کو ان کی حالت پر ہی چھوڑ دیتے ہیں“۔
          (۳)عن”أبي موسیٰ الأشعري“رضي اللہ عنہ،عن”رسول اللہ“ صلى الله عليه وسلم قال:(إن اللہ لیطلع في لیلة النصف من شعبان، فیغفر لجمیع خلقہ إلا لمشرک أو مشاحن) (سن ابن ماجة،رقم الحدیث”۱۳۹۰“مکتبہ أبي المعاطي) 
          ترجمہ:حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ ”آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالی شعبان کی پندرہویں رات رحمت کی نظر فرما کر تمام مخلوق کی مغفرت فرما دیتے ہیں، سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے والے اور دلوں میں کسی مسلمان کی طرف سے بغض رکھنے والوں کے“۔
          (۴) عن”عبد اللہ ابن عمرو“رضي اللہ عنہ، أن”رسول اللہ“ صلى الله عليه وسلم قال:(یطلع اللہ عزوجل إلی خلقہ لیلة النصف من شعبان، فیغفر لعبادہ إلا لاثنین: مشاحنٌ وقاتلُ نفسٍ)(مسند أحمد بن حنبل،رقم الحدیث”۶۶۴۲“:۲/۱۷۶،عالم الکتب)
          ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ” رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شعبان کی پندرہویں رات اللہ عزوجل اپنی مخلوق کی طرف رحمت کی نظر فرماتے ہیں ، سوائے دو شخصوں کے باقی سب کی مغفرت فرما دیتے ہیں،ایک کینہ ور، دوسرے کسی کو ناحق قتل کرنے والا“۔
          (۵)عن”عثمان بن أبي العاص“رضي اللہ عنہ، عن ”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(إذا کان لیلة النصف من الشعبان، نادیٰ منادٍ ھل من مستغفر؟ فأغفر لہ، ھل من سائل؟ فأعطیہ، فلا یسأل أحد شیئاً إلا أعطي إلا زانیة بفرجھا أو مشرک)(شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۵“:۵/۳۶۲،مکتبة الرشد)
          ترجمہ:حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نبی  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو(اللہ تعالی کی طرف سے )ایک پکارنے والا پکارتا ہے ، ہے کوئی مغفرت کا طالب ؟!کہ میں اس کی مغفرت کر دوں،ہے کوئی مانگنے والا؟! کہ میں اس کو عطا کروں،اس وقت جو (سچے دل کے ساتھ)مانگتا ہے اس کو (اس کی شا ن کے مطابق )ملتا ہے،سوائے بدکار عورت اور مشرک کے(کہ یہ اپنی بد اعمالیوں کے سبب اللہ کی عطا سے محروم رہتے ہیں)۔
          (۶)عن ”عائشة“رضي اللہ عنھا عن”النبي“ صلى الله عليه وسلم قال:(ھل تدرین ما فيھذہ اللیلة یعني لیلة النصف من شعبان؟)، قالت:”ما فیھا یا رسول اللہ؟“قال:(فیھا یکتب کل مولود بني آدم في ھذہ السنة، وفیھا أن یکتب کل ھالک من بني آدم في ھذہ السنة، وفیھا ترفع أعمالھم، وفیھا تنزل أرزاقھم)(الدعوات الکبیر للبیہقي، رقم الحدیث”۵۳۰“:۱۰ / ۱۴۶،غراس للنشر والتوزیغ،الکویت)        
          ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتی ہیں کہ” آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اس رات یعنی شعبان کی پندرہویں رات میں کیا ہوتا ہے؟انھوں نے دریافت فرمایا کہ: یا رسول اللہ! کیا ہوتا ہے؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس شب میں یہ ہوتا ہے کہ اس سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہیں، وہ سب لکھ دئیے جاتے ہیں ،اور جتنے اس سال مرنے والے ہیں وہ سب بھی اس رات لکھ دیے جاتے ہیں ،اور اس رات میں سب بندوں کے (سارے سال کے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی (مقررہ وقت)پر اترتی ہے“۔
          (۷)عن ”عطاء بن یسار“قال:(إذا کان لیلة النصف من شعبان نسخ الملک من یموت من شعبان إلی شعبان وإن الرجل لیظلم ویتجر وینکح النسوان وقد نسخ إسمہ من الأحیاء إلی الأموات ما من لیلة بعد لیلة القدر أفضل منھا، ینزل اللہ إلی السماء الدنیا، فیغفر لکل أحد إلا لمشرک أومشاحن أو قاطع رحم)(کنز العمال:۴۴۳۱)
          ترجمہ:”حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو موت کا فرشتہ ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک مرنے والوں کا نام (اپنی فہرست سے) مٹا دیتا ہے اور کوئی شخص ظلم، تجارت اور کوئی عورتوں سے نکاح کر رہا ہوتا ہے اس حال میں کہ اس کا نام زندوں سے مردوں کی طرف منتقل ہو چکا ہوتا ہے، شب قدر کے بعد کوئی رات اس رات سے افضل نہیں، اللہ تعالی(اپنی شان کے مطابق )آسمانِ دنیا پر نزول فرما کر ہر ایک کی مغفرت فرما دیتے ہیں سوائے مشرک،کینہ ور اور قطع رحمی کرنے والے کے “۔
          (۸) أتاني جبرئیل علیہ السلام فقال:(ھذہ اللیلة لیلة النصف من شعبان، واللّٰہِ فیھا عتقاءُ من النار بعدد شعورغنم کلب لا ینظر اللّٰہ فیھا إلی مشرک ولا مشاحن ولا إلی قاطع رحم ولا إلی مسبل ولا إلی عاق لوالدیہ ولا إلی مدمن خمر) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۶“:۵/۳۶۳،مکتبة الرشد)
          ترجمہ:”(حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا )جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اللہ تعالی اس رات میں بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرتا ہے، جن کی تعداد” قبیلہٴ کلب“ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے؛ مگر اس رات میں اللہ تعالی مشرک، اور کینہ ور ،اور رشتے ناطے توڑنے والے(یعنی قطع تعلقی کرنے والے)اورازار(یعنی پاجامہ ،شلوار وغیرہ)ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے،(لوگوں )اور ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی لوگوں کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرماتے“۔
          (۹)عن ”عثمان بن محمد “قال:قال رسول اللہ صلى الله عليه وسلم (تقطع الآجال من شعبان إلی شعبان حتیٰ أن الرجل لینکح ویولد لہ وقد خرج اسمہ في الموتیٰ) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۵۵۸“:۵/۳۶۵،مکتبة الرشد)   
          ترجمہ:”حضرت عثمان بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (زمین پر بسنے والوں کی )عمریں ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک طے کی جاتی ہیں ،یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں؛ حالانکہ اس کا نام مردوں کی فہرست میں داخل ہو چکا ہوتا ہے“۔
          (۱۰) عن”أبي الدرداء“ رضي اللہ عنہ قال:(من قام لیلتي العیدین للہ محتسباً لم یمت قلبہ حین تموت القلوب)، قال ”الشافعي“رحمہ اللہ:(وبلغنا أنہ کان یقال إن الدعاء یستجاب في خمس لیال: في لیلة الجمعة، ولیلة الأضحیٰ، ولیلة الفطر، وأول لیلة من رجب، ولیلة النصف من شعبان) (شعب الإیمان للبیہقي،رقم الحدیث”۳۴۳۸“:۵/۲۸۷،مکتبة الرشد)
          ترجمہ:حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جس شخص نے ثواب کی امید سے عیدین کی راتوں میں قیام کیا(یعنی عبادت کے ذریعے ان کو زندہ کیا) تو اس کا دل اس (وحشت والے)دن زندہ رہے گا، جس دن لوگوں کے دل (قیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے)مردہ ہو جائیں گے،”امام شافعی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ پانچ راتوں میں دعاوٴں کو قبول کیا جاتا ہے،جمعہ کی رات ،عید الاضحی کی رات ، عید الفطر کی رات،رجب کی پہلی رات،اور شعبان کی پندرہویں رات“۔
          مذکورہ ارشادات کے علاوہ اور بہت سی روایات میں اس رات کے فضائل وارد ہوئے ہیں اس وقت ان سب کا جمع کرنا مقصود نہیں ،بس ایک خاص جہت سے ایک نمونہ سامنے لانا مقصود ہے۔وہ خاص پہلو یہ ہے کہ مذکورہ تمام احادیث میں جہاں عظیم الشان فضائل مذکور ہیں، وہاں بہت سے ایسے (بد قسمت)افراد کا تذکرہ ہے ،جو اس مبارک رات میں بھی رب عزوجل کی رحمتوں اور بخششوں سے محروم رہتے ہیں،ذیل میں ان گناہوں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے ؛تاکہ تھوڑا سا غور کر لیا جائے کہ کہیں ہم بھی ان رذائل میں تو مبتلا نہیں ! اللہ نہ کرے کہ ہمارے اندر ان میں سے کچھ ہو،اور اگر کچھ ہو تو اس سے بروقت چھٹکارا حاصل کر سکیں:
”شب براء ت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم افراد“:
          (۱)مسلمانوں سے کینہ،بغض رکھنے والا۔(۲)شرک کرنے والا۔(۳)ناحق قتل کرنے والا۔(۴)زنا کرنے والی عورت۔(۵)قطع تعلقی کرنے والا۔(۶)ازار(شلوار،تہبند وغیرہ) ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا۔(۷)والدین کا نافرمان۔(۸)شراب پینے والا۔
(۱) کینہ،بغض :
          کسی شخص پر غصہ پیدا ہو اور یہ شخص کسی وجہ سے اس پر غصہ نہ نکال سکے تو اس کی وجہ سے دل میں جو گرانی پیدا ہوتی ہے، اس کو ”کینہ “کہتے ہیں،اسی کا دوسرا نام ”بغض “بھی ہے،کینہ و بغض محض ایک گناہ یا عیب نہیں؛ بلکہ یہ اور بہت سارے گناہوں کا مجموعہ ہے،امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ غصہ سے کینہ اور کینہ سے ”آٹھ“گناہ پیدا ہوتے ہیں ،(۱) حسد،(۲) شماتت،(۳) سلام کا جواب نہ دینا،(۴) حقارت کی نگاہ سے دیکھنا،(۵) غیبت ،جھو ٹ اور فحش گوئی کے ساتھ زبان دراز کرنا،(۶) اس کے ساتھ مسخرا پن کرنا،(۷) موقع پاتے ہی اس کو ستانا،(۸) اس کے حقوق ادا نہ کرنا۔(کیمیائے سعادت،ص:۳۳۲) اس کے علاوہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ” کینہ ور کی بخشش نہیں کی جاتی“ (مشکاة المصابیح،ص؛۴۲۷) اس جیسی اور بہت سی احادیث سے کینہ کی برائی اور مذمت سامنے آتی ہے؛اس لیے غور کر کے اپنے آپ کو اس برائی سے بچانا از حد ضروری ہے،اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ جیسے ہی کسی پرغصہ آئے فوراً اس کو معاف کر دیا جائے،ہر گز اس کے خلاف کسی بات کو دل میں نہ رہنے دیا جائے،اور اس سے میل جول اور سلام و کلام شروع کر دیا جائے۔
(۲) شرک :
          اللہ تعالی کی ذات یا صفات ِمختصہ میں کسی کو شریک ٹھہرانا شرک کہلاتا ہے،شرک توحید کی ضد ہے،موجودہ دور میں شرک کی جتنی صورتیں مروج ہیں، ان سب سے بچنا ضروری ہے، مثلاً: غیر اللہ کو مختار کل ،نفع ونقصان کا مالک ، زندہ کرنے اورمارنے پر قادر، بیمار کرنے اور شفاء دینے پر قادر، روزی میں وسعت اور تنگی پیدا کرنے پر قادرسمجھنا،انبیاء کرام واولیاء عظام کے تقرب کے حصول کے لیے ان کے نام کی نذر ونیاز اور منت ماننا،ان کی قبروں پر سجدہ کرنا،ان کو عالم الغیب اورحاضرو ناظرسمجھنا سب شرک کی اقسام ہیں، پھر شرک کی دو قسمیں ہیں:شرک اکبر اور شرک اصغر،شرک اکبر کی تفصیل تو گذر چکی،شرک اصغر میں ریاکاری،بدشگونی اور غیر اللہ کے نام کی قسمیں کھاناوغیرہ شامل ہے،شرک کا انجام دوزخ بتایا گیا ہے،﴿إن اللہ لا یغفر أن یشرک بہ ویغفر ما دون ذلک لمن یشآء، ومن یشرک باللہ فقدضلّ ضلالاً بعیداً﴾ (النساء:۱۱۶) ترجمہ:”اللہ تعالی اس کو تو بے شک نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے،لیکن اس کے علاوہ جس کسی کو بھی چاہے گا بخش دے گا،اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے، وہ یقینا بڑی دور کی گمراہی میں پڑ گیا“۔
(۳) ناحق قتل:
          بغیر کسی شرعی عذر کے کسی کو ناحق قتل کرنا چاہے، وہ کافر ہی کیوں نہ ہوسخت گنا ہ ہے،اور کسی ایمان والے کو قتل کرنا تو اس سے بھی بدترین ہے ایسے شخص کے بارے میں قرآن پاک میں بہت سخت وعید آئی ہے،ارشاد باری تعالی ہے﴿ومن یقتل موٴمناً متعمداً فجزاوٴہ جھنم خالداً فیھا وغضب اللہ علیہ ولعنہ وأعد لہ عذاباًعظیماً﴾ (النساء:۹۳)․اس آیت میں اللہ تعالی نے قاتل کو ہمیشہ جہنم کی،اپنے غضب ،اپنی لعنت اور سخت عذاب کی وعید سنائی ہے،موجودہ دور میں انسانی جان کی قیمت چند ٹکوں کے برابر بھی نہیں سمجھی جاتی،ذرا ذرا سی بات پر اور دنیاوی چند سکوں کی خاطر کسی کے سہاگ کو اجاڑ دینا،معصوم بچوں کو یتیم کر دینا،بوڑھے ماں باپ کی آخری عمر کے سہاروں کو چھین لینا،اور تجارتی وکاروباری مراکز کو خاکستر کر دینا، ایک کھیل سا بن گیا ہے،اور قیامت کی علامات میں سے یہ علامت بھی سامنے آچکی ہے کہ نہ مرنے والے کو پتہ ہے کہ کس نے مارا اور کیوں مارا اور نہ ہی مارنے والے کو ۔
(۴) زنا:
          کبیرہ گناہوں میں سے ایک بڑا گناہ زنا بھی ہے،جو عورت یا مرد اس بد ترین گناہ میں مبتلا ہو، اس کے لیے احادیث مبارکہ میں سخت وعیدیں آئی ہیں ،اور اگر اس عمل ِبد کو پیشے کے طور پر کیا جائے ”جیسے موجودہ دور میں اس کا رواج عام ہو چکا ہے“تو یہ دوہرا گناہ ہے اور ایسی کمائی بھی حرام ہے۔”شب ِمعراج میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ایسی عورتوں پر ہوا جو اپنے پستانوں سے(بندھی ہوئی) اور پیروں کے بل لٹکی ہوئی تھی ، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل امین علیہ السلام سے سوال کیا کہ یہ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ زناکار عورتیں اور اپنی اولاد کو قتل کرنے والی عورتیں ہیں“․
(۵) قطع رحمی:
          اپنے اعزہ واقرباء اور اپنے متعلقین کے حقوق ِضروریہ ادا نہ کرنا قطع رحمی ہے،مثلاً:سلام کا جواب نہ دینا،بیماری کے وقت عیادت نہ کرنا،چھینک کا جواب نہ دینا، فوت ہو جانے پر بلا عذر اس کی نمازِجنازہ نہ پڑھناوغیرہ ،یہ سب درجہ بدرجہ قطع رحمی میں شامل ہیں،ایک موقع پر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”قطع رحمی کرنے والا(قانوناً،بغیر سزا کے)جنت میں نہیں جائے گا“ (بخاری ومسلم )
(۶) ازار”شلوار،پاجامہ“ٹخنوں سے نیچے لٹکانا:
          مردوں کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار، تہبند،پاجامہ، پینٹ ، کرتا یاچوغہ وغیرہ لٹکاناحرام اور گناہ کبیرہ ہے،ایک حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ:”ٹخنوں سے نیچے جو تہبند(پاجامہ وغیرہ) ہو وہ دوزخ میں لے جانے والا ہے“۔(مشکاة المصابیح:۱/۲۷۳،قدیمی)تکبر کی نیت ہو یا نہ ہو ہر حال میں یہ گناہ ہے ، اگر تکبر کی نیت ہو تو دوہرا گناہ ہے اور اگر نیت نہ بھی ہو تو اس فعل کا گناہ ہے۔
(۷) والدین کی نافرمانی:
          والدین کی نافرمانی بہت سخت گناہ ہے، کئی احادیث میں والدین کی نافرمانی پر سخت وعیدیںآ ئی ہیں،ایک حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:”احسان جتلانے والا،والدین کا نافرمان ، اور شراب پینے والا جنت میں داخل نہ ہو گا“(نسائی،دارمی)۔قرآن پاک میں تو والدین کے سامنے ”اُف“ تک کہنے سے منع کیا گیا ہے،آج کل والدین کی نافرمانی، ان کے آگے بولنا ،ان کے حقوق ادا نہ کرناعام ہو گیا ہے، اس سے اجتناب ازحد ضروری ہے،وگرنہ دنیاو آخرت کاوبال اس کا مقدر بنے گا۔
(۸) شراب نوشی:
          شراب نوشی کی ایک وعید پیچھے گذر چکی ، یہ صرف ایک گناہ کبیرہ ہی نہیں؛ بلکہ یہ بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے،اس کو ام الخبائث کہا گیا ہے،ایک حدیث پاک میں ہے کہ:”میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے،اور شراب کو دوسرا نام دیں گے، اوران کے سامنے ناچنے اور گانے والی عورتیں ہوں گی ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دیں گے یا ان کو بندر اور خنزیر بنا دیں گے“۔لہذا شراب یا دیگر نشہ پیدا کرنے والی سب چیزیں مثلا:وہسکی ، ہیروئن،بھنگ،وغیرہ سب حرام ہیں۔آج موجودہ دور میں اس حدیث کے مناظر پوری طرح ہمارے سامنے ہیں،اللہ تعالی ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
          شب براء ت کے فضائل والی احادیث میں مذکور تمام محروم رہ جانے والوں کا کچھ کچھ تذکرہ ہو گیاان سب گناہوں سے جتنا جلد ہو سکے اور کم از کم شعبان کی پندرہویں رات سے پہلے پہلے توبہ کر کے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔
اکابرین امت کے اقوال:
          علامہ ابن الحاج مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”اس رات کے بڑے فضائل ہیں اور بڑی خیر والی رات ہے، اورہمارے اسلاف اس کی بڑی تعظیم کرتے تھے اور اس رات کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے تھے“(المدخل لابن الحاج:۱/۲۹۹)
          علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے شاگردابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ” شام کے مشہور تابعی خالد بن لقمان رحمہ اللہ وغیرہ اس رات کی بڑی تعظیم کرتے،اوراس رات میں خوب عبادت کرتے“۔(لطائف المعارف:۱۴۴)
          علامہ ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو بیداررہنا مستحب ہے“ (البحر الرائق:۲/۵۲)
          علامہ حصکفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”شعبان کی پندرہویں رات کو عبادت کرنا مستحب ہے“ (الدر مع الرد:۲/۲۴،۲۵)
          علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ”بیشک یہ رات شب براء ت ہے اور اس رات کی فضیلت کے سلسلے میں روایات صحیح ہیں“(العرف الشذی،ص:۱۵۶)
          شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ”اس رات بیداررہنا مستحب ہے اور فضائل میں اس جیسی احادیث پر عمل کیا جاتا ہے ،یہی امام اوزاعی کا قول ہے“۔ (ما ثبت بالسنة،ص:۳۶۰)
          حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ”شب براء ت کی اتنی اصل ہے کہ پندرہویں رات اور پندرہواں دن اس مہینے کا بزرگی اوربرکت والا ہے“۔(بہشتی زیور،چھٹا حصہ،ص:۶۰)
          کفایت المفتی میں ہے کہ”شعبان کی پندرہویں شب ایک افضل رات ہے“(۱/۲۲۵،۲۲۶)
          فتاوی محمودیہ میں ہے کہ”شب قدر وشب براء ت کے لیے شریعت نے عبادت، نوافل، تلاوت،ذکر، تسبیح، دعاء و استغفار کی ترغیب دی ہے “۔(۳/۲۶۳،جامعہ فاروقیہ کراچی)
          مفتی محمد تقی عثمانی صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں کہ”واقعہ یہ ہے کہ شب براء ت کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے احادیث مروی ہیں، جن میں اس رات کی فضیلت نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے،ان میں بعض احادیث سند کے اعتبار سے بے شک کچھ کمزور ہیں؛لیکن حضرات محدثین اور فقہاء کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبارسے کمزور ہو، لیکن اس کی تائید میں بہت سی احادیث ہو جائیں تو اس کی کمزوری دور ہو جاتی ہے“(اصلاحی خطبات:۴/۲۶۳ تا۲۶۵ ،ملخصاً)
شب براء ت کی رسومات اور بدعات:
          اس رات میں حد سے زیادہ عبادت کرنا،مسجدوں میں اجتماعی شب بیداری کرنا، مخصوص قسم کے مختلف طریقوں سے نوافل پڑھنا، جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، نوافل وتسبیح تراویح کی جماعت کروانا،اسپیکر پر نعت خوانی وغیرہ کرنا،ہوٹلوں اور بازاروں میں گھومنا،حلوہ پکانے کو ضروری سمجھنا،خاص اس رات میں ایصال ثواب کو ضروری سمجھنا، قبرستان میں چراغ جلانا،اس رات سے ایک دن پہلے عرفہ کے نام سے ایک رسم، اس رات میں گھروں میں روحوں کے آنے کا عقیدہ، فوت شدہ شخص کے گھر جانے کو ضروری سمجھنا،کپڑوں کا لین دین، بیری کے پتوں سے غسل کرنا،گھروں میں چراغاں کرنا،گھروں اور مساجد کو سجانا،اور ان سب سے بڑھ کر اس رات میں آتش بازی کرنا ،مذکورہ تمام امور شریعت کے خلاف ہیں، ان کا کوئی ثبوت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورسلف صالحین سے نہیں ملتا؛ اس لیے ان تما م بدعات ورسومات کا ترک اور معاشرے سے ان کو مٹانے کی کوشش کرنا ہر ہر مسلمان پر بقدرِ وسعت فرض ہے۔
شب براء ت میں کرنے کے کام:
          آخر میں اس مبارک رات میں کرنے والے کیا کیا کام ہیں ؟ ان کا ذکر کیا جاتا ہے؛تاکہ افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اس رات کے فضائل کو سمیٹا جا سکے:
          ۱-       نماز عشاء اور نماز فجر کو باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرنا۔
          ۲-       اس رات میں عبادت کی توفیق ہو یا نہ ہو ،گناہوں سے بچنے کا خاص اہتمام کرنا،بالخصوص ان گناہوں سے جو اس رات کے فضائل سے محرومی کا سبب بنتے ہیں۔
          ۳-       اس رات میں توبہ واستغفار کا خاص اہتمام کرنااور ہر قسم کی رسومات اور بدعات سے اجتناب کرنا۔
          ۴-       اپنے لیے اور پوری امت کے لیے ہر قسم کی خیرکے حصول کی دعاء کرنا۔
          ۵-       بقدر وسعت ذکر اذکار ،نوافل اور تلاوت قرآن پاک کا اہتمام کرنا۔
          ۶-       اگر بآسانی ممکن ہو تو پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا۔
          واضح رہے کہ مذکورہ تمام اعمال شب براء ت کا لازمی حصہ نہیں؛بلکہ ان کا ذکر محض اس لیے ہے کہ ان میں مشغولی کی وجہ سے اس رات کی منکرات سے بچا جا سکے۔

***

رمضان اور زکوٰة

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ‏، جلد: 96 ‏، شعبان-رمضان 1433 ہجری مطابق جولائی 2012ء



رمضان اور زکاة


از: مولانامفتی محمد راشد ڈسکوی

استاذ ورفیق شعبہٴ تصنیف و تالیف جامعہ فاروقیہ، کراچی


          رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتیں ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکاة نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکاة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکاة کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے؛ اس لیے اس موقع پر مناسب معلوم ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان ، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میں ”زکاة “ پر بھی لکھا جائے ؛ تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکاة رمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکاة نکالنے والا اپنی زکاة کی ادائیگی میں زکاة کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکاة نکالے ،اور اس کے لیے رمضان کا انتظار نہ کرے؛چنانچہ ذیل میں ”زکاة کن اموال پر واجب ہوتی ہے؟“ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی جائے گی۔
زکاة کا معنی و مفہوم:
          زکاة کے لغوی معنی پاکی کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکاة کہتے ہیں۔(الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الزکوٰة: ۱/۹۹، درالکتب العلمیہ)
          زکوٰة کو زکوٰة کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکوٰة و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰة سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰة کا نام زکوٰة رکھا گیا۔
زکاة کی فرضیت:
          زکاة اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرئہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے، جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔ زکاة کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی؛ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی؛ لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکاة کے فوائد، ثمرات و برکات:
          زکاة اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث، دئیے گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
          (۱) زکاة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة:۲۶۷،صحیح البخاري، کتاب الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۱۰)
          (۲) زکاة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة:۱۶۱، تفسیر البیضاوی:البقرة:۲۶۱)
          (۳)زکاة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر:۲۹،۳۰)
          (۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاة ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف:۱۵۶)
          (۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)
          (۶) زکاة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:۲۸۰)
          (۷) قبر میں زکاة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الجنائز، رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،۷/۴۷۳،دار قرطبة، بیروت)
          (۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاة کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوٰت، رقم الحدیث۴۲۹،۱/۲۱۴،دار ابن حزم)
          (۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاة ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث:۱۲۳۹۴)
          (۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاہ:۳/۶۳)
          (۱۱) زکاة سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان للبیہقي،کتاب الزکاة، فصل في من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألة،رقم الحدیث:۳۵۵۷، ۳/۲۸۲، دارالکتب العلمیہ)
          (۱۲)زکاة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الزکاة، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ فی الزکاة، رقم الحدیث:۷۳۷۹)
          اوپر جتنے فضائل ذکر کیے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکاة سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکاة “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی زکاة ۔
زکاة ادا نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدیں:
          فریضہ زکاة کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں:
          (۱) جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورة توبہ:۳۴،۳۵)
          (۲) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورة آل عمران:۱۸۰)
          (۳) ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورة البقرة:۲۵۴)
          (۴)زکاة کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورة اللیل:۵ تا۱۱)
           (۵)ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۰۳،۲/۱۱۰،دارطوق النجاة)
          (۶) مرتے وقت ایسا شخص زکاة ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورة المنافقون:۱۰، صحیح البخاری، کتاب الزکاة، باب فضل صدقة الشحیح الصحیح، رقم الحدیث:۱۴۱۹، ۲/۱۱۰، دارطوق النجاة)
          (۷)ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة)
          (۸) ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوة للبیہقي، باب الإسراء ،رقم الحدیث:۶۷۹)
          (۹) ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاة:۳/۶۲)
          (۱۰) جب لوگ زکاة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۲۵۷۷)
          (۱۱) جب کوئی قوم زکاة روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني، تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:۴۵۷۷)
 زکاة ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی:
          نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” کہ میں تین چیزوں پر قسم کھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکاة (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“، یا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا۔اور میں ( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے:
          ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔
          دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔
          تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔
          چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے؛ پس اس کا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔(ترمذی شریف کتاب الزہد رقم الحدیث:۲۳۲۵، ۴/۵۶۲)
زکاة کن افراد پر اور کن افراد کے لیے ہے؟
          دنیا میں بسنے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو ان تما م افراد کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
          (۱) مال دار افراد، جن پر مخصوص شرائط کے بعد زکاة فرض ہوتی ہے۔
          (۲) دوسرے غریب افراد، جن پرزکاة فرض نہیں ہوتی اور ان کے لیے زکاة لینا جائز ہے۔
          (۳)تیسرے وہ متوسط درجے کے افراد، جن پر زکاة تو فرض نہیں ہوتی؛ لیکن ان کے لیے زکاة لینا بھی جائز نہیں۔
          اب ان تینوں قسم کے افراد کو پہچاننے کے لیے کیا معیار اور کسوٹی ہے کہ اس کے مطابق ہر طبقے والا اپنی حالت اور کیفیت کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے اوپر عائد احکامات ِ الٰہیہ کوپہچان کر پورا کر سکے،اس کے لیے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک تو وہ کون سی اشیاء یا اموال ہیں جن کے ہوتے ہوئے زکاة فرض ہوتی ہے؟ اور دوسرا وہ اشیاء یا اموال کتنی مقدار میں ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص زکاة دینے والا یا زکاة لینے والا ٹھہرتا ہے؟ان میں سے پہلی چیز کو ”اموالِ زکاة “ اور دوسری چیز کو ”نصابِ زکاة “ سے پہچانا جاتا ہے۔ذیل میں اموال ِ زکاة اور نصاب ِ زکاة کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
اموالِ زکاة:
          اموالِ زکاة سے مراد وہ اشیاء یا اموال ہیں، جن کا(مخصوص مقدار میں)مالک ہونے پر(جس کو نصاب سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) زکاة فرض ہوتی ہے۔وہ کل چار قسم (کی اشیاء یا اموال) ہیں:
          (۱) سونا، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (سونا)مال ِ زکاة ہے۔
          (۲) چاندی، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (چاندی)مال ِ زکاة ہے۔
          (۳) نقدی، اپنے ملک کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنے پاس ہو یا بینک میں، چیک ہو یا ڈرافٹ،نوٹ ہو یا سکّے، کسی کو قرض دی ہوئی ہو(بشرطیکہ ملنے کی امید ہو)یا اس کی سرمایہ کاری کر رکھی ہو،ان تمام صورتوں میں یہ (نقدی) مال ِ زکاة ہے۔
          (۴) مال ِ تجارت، یعنی تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
          یہ کل چار قسم کے اموال ہیں جن پر (مخصوص مقدار تک پہنچنے پر)زکاة فرض ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی مقروض ہو تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے اموال کی زکاة دی جائے گی۔
نصابِ زکاة:
          سطورِ بالا میں معاشرے کے تین طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ”نصاب “کے مالک ہونے پر موقوف ہے، اس تمیز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نصاب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ”زکاة دینے والے “ سے ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ”زکاة لینے والے “ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے:
پہلی قسم کا نصاب (زکاة دینے والے کے لیے)
          اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں کے لیے امراء پر ان کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکاة فرض کی ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے، اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکاة فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکاة فرض نہیں ہے۔
          (۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ ہو اور کوئی مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے سات تولے (479ء87گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة، صفةالزکاة:۲/۱۰۵،دار إحیاء التراث العربي)
          (۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور اگر چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
          (۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام) چاندی خریدی جاسکے ، اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۳،دار إحیاء التراث العربي)
          (۴) اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا ، چاندی اور مالِ تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ہو تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکاة واجب ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،صفة الزکاة:۲/۱۰۵،۱۰۶،دار إحیاء التراث العربي)
دوسری قسم کا نصاب (زکاة لینے والے کے لیے)
          اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی شامل کیا جائے گا،اور یہاں بھی وہ تمام صورتیں بنیں گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً:
          (۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی ،اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔
          (۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔
          (۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔ اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی نہ ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو ایسے شخص کا زکاة لینا جائز ہے۔
          (۴) اگر کسی کے پاس سونا ،چاندی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو (چاہے جتنا بھی ہو)۔
           (۵) اگر کسی کے پاس سونا ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
           (۶) اگر کسی کے پاس سونا،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو ۔
          (۷) اگر کسی کے پاس چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
          (۸) اگر کسی کے پاس چاندی ، مالِ تجارت اورضرورت سے زائد سامان ہو۔
           (۹) اگر کسی کے پاس (چاروں مال)سونا، چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان“ہو۔
          (۱۰) اگر کسی کے پاس سونا ، چاندی ،مالِ تجارت ہو اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
          (۱۱) اگر کسی کے پاس (پانچوں مال)سونا،چاندی، نقدی ،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر انکی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکاة لیناجائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکاة اور ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة، مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار إحیاء التراث العربي)
ضرورت سے زائد سامان:
          وہ تمام چیزیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں ، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی ، کبھی کبھار ہی استعمال میں آتی ہیں، مثلاً: بڑی بڑی دیگیں ، بڑی بڑی دریاں، شامیانے یا برتن وغیرہ۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          الف:وی سی آر۔ ڈش ،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیوکیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں ؛بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا ہے،اس لیے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائے گی۔
          ب:رہائشی مکان ، پہننے،اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          ج: صنعتی آلات، مشینیں اور دوسرے وسائل رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے)بھی ضرورت میں داخل ہیں ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین، لوہاراور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والی کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          د:اگر کسی کے پاس ضرورت پوری کرنے کا سامان ہے؛ لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے زائدبھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مثلاً:کسی کی ضرورت ایک گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے پاس دو گاڑیاں ہیں، تو اس زائد گاڑی کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا جائے گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار إحیاء التراث العربي)
زکاة واجب ہونے کے لیے تاریخ:
          زندگی میں سب سے پہلی بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے، یہ تاریخ اس شخص کے لیے زکاة کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ زکاة کے وجوب اور ادائیگی کے لیے قمری سال ہونا ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا۔
زکاة کا حساب کرنے کا طریقہ:
          جس چاند کی تاریخ کو کسی کے پاس بہ قدر نصاب مال آیا ، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ میں اپنے مال کا حساب کیا جائے اگر بہ قدر (پہلی قسم کے )نصاب کے مال ہے تو اس کل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکاة دینا ہو گی۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاة:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
سامان کی قیمت لگانے کا طریقہ:
          ”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا ، چاندی کی بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاً: کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات ہزار ہو گئی تو فروخت والی قیمت کو زکاة کے لیے شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
مال پر سال گذرنے کا مطلب:
          جس تاریخ میں زکاة واجب ہوئی تھی، اس کے ایک سال بعد زکاة دی جائے گی،اس ایک سال کے گذرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے بعد والی تاریخ میں مال نصاب کے بہ قدر اس شخص کی ملکیت میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے ، اس سے کچھ اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال نصاب سے کم نہ ہو گیا ہو، یعنی مال کے ہر ہر جز پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے سال اسی تاریخ تک نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،اموال الزکاة:۲/۹۶،دار إحیاء التراث العربي)
مالِ تجارت کی زکاة کے احکام:
          ”مال ِ تجارت سے مراد “پیچھے واضح کی جا چکی ہے کہ تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں کسی کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔بعض افراد اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ تجارت کرتا ہو، اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا ہو؛حالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لیے اس میں مذکورہ قید ضروری نہیں؛ بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں بنے گی۔دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے خریدا تھا اگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز مالِ تجارت سے نکل جائے گی۔سونا ، چاندی اور نقدرقم اس تعریف سے خارج ہے، یعنی ان کے لیے کسی خاص نیت وغیرہ کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکاة ہیں۔(ردالمحتار،کتاب الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
تجارتی اموال سے متعلق چند مسائل :
          (۱) جن اشیاء کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو ؛ بلکہ ان کی ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا کسی اور شکل میں نفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں۔مثلاً: کارخانوں کا منجمد اثاثہ ، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دوکان کا سامان ، استعمال کی گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لیے رکھے ہوئے برتن ، کراکری کا سامان، فریج ، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔اس قسم کی چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئیں؛بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے؛ اس لیے یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکاة واجب نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لیے ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں بعض مکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لیے خریدتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کر لیں گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے۔ (ردالمحتار، کتاب الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
          (۲) اگر کوئی جانور بیچنے کے لیے خریدے تو وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکاة بھی واجب ہو گی(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۶)
          قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے ہیں تو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو جانور دودھ حاصل کرنے کے لیے خریدے تو وہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں؛ البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۷)
          (۳) اگر کسی کا پولٹری فارم یا مچھلی فارم ہو،تو ان کی زکاة میں یہ تفصیل ہے کہ ان کی زمین، مکان اور ان سے متعلقہ سامان پر تو زکاة فرض نہیں ہوتی،البتہ مرغیاں یا مچھلیاں اگر فروخت کرنے کے لیے رکھی ہیں تو یہ مالِ تجارت ہیں اوراگر فروخت کرنے کے لیے نہیں،بلکہ مرغیوں کے انڈے حاصل کرنے کے لیے وہ مرغیاں رکھی ہیں تو ان انڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکاة ہو گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۳۱۰)جو شخص انڈے فروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے تو وہ انڈے مالِ تجارت ہیں،اور اگر ان انڈوں سے چوزوں کا حصول مقصود ہے تو ان بچوں کی قیمت پر زکاة لازم ہوگی۔
سامانِ تجارت کی قیمت لگانے کا طریقہ:
          ”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
قرض پر زکاة کا حکم:
          جو رقم کسی کو بطور قرض دی ہو ، اس کی دو قسمیں ہیں :ایک تووہ قرض ہے ، جس کے (کبھی نہ کبھی)واپس ملنے کی امید ہو ۔ دوسرا وہ قرض ہے ،جس کے واپس ملنے کی (کبھی بھی)امید نہ ہو ۔
           تو پہلی قسم والے قرض کی زکاة دی جائے گی اور دوسری قسم کے قرض کی زکاة نہیں دی جائے گی؛البتہ اگر کبھی یہ قرض بھی وصول ہو گیا تو اس کی بھی زکاة ادا کی جائے گی۔(ہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الاول:۱/۱۷۴، ۱۷۵، رشیدیہ)
قرض کی تین قسمیں:
          پہلی قسم والے قرض کی تین قسمیں ہیں: (۱)دَین قوی (۲) دَین متوسط (۳) دَین ضعیف۔ ان تینوں قسم کے دُیون (قرضوں) کے وصول ہونے پر زکاة کی ادائیگی کا طریقہ اور حکم قدرے مختلف ہے، ذیل میں اجمالاً دَین کی تینوں قسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
دَین قوی کا حکم:
          اگر کسی شخص کونقد روپیہ یا سونا یا چاندی بہ طور ِ قرض دی،یا کسی شخص کے ہاتھ تجارت کا مال بیچا اور اس کی قیمت ابھی وصول نہیں ہوئی،پھر یہ مال ایک سال یا دو، تین سال کے بعد وصول ہوا تو ایسے قرض کو ”دَینِ قوی“ کہتے ہیں۔
          ایسا قرض اگرچاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یک مُشت وصول نہ ہو ،بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو ، تو جب چاندی کے نصاب کا بیس فی صد (یعنی: ساڑھے دس تولے)وصول ہو جائے، تو صرف اس بیس فی صدکی زکاة ادا کرنا فرض ہو گا، پھر جب مزید بیس فی صدوصول ہو جائے گا تو اس کی زکاة ادا کرنافرض ہو گی، اسی طرح ہر بیس فی صد وصول ہونے پرزکاةفرض ہوتی رہے گی اور زکاة سابقہ تمام سالوں کی نکالی جائے گی۔
          اور اگر قرض کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر نہیں؛ بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہو گی؛ البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم ہے اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو جاتے ہیں تو زکاة فرض ہو گی۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال:۲/۳۰۵،۳۰۶،۳۰۷، سعید)
دَین متوسط کا حکم:
          اگر کسی کو قرض نقد روپے اور سونا چاندی کی صورت میں نہیں دیا اور تجارت کا مال بھی فروخت نہیں کیا، بلکہ کوئی چیز فروخت کی جو تجارت کی نہیں تھی، مثلاً:پہننے کے کپڑے یا گھر کا کوئی سامان یا کوئی زمین فروخت کی تھی،اس کی قیمت باقی ہے، تو ایسے قرض کو ”دَین ِمتوسط “کہتے ہیں۔
          تو اگر یہ قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور چند سالوں کے بعد وصول ہوئی تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة اس پر فرض ہو گی اور اگر یک مُشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد وصول نہ ہو جائے، تب تک زکاة ادا کرنا فرض نہ ہو گا، البتہ وصول ہونے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکاة ادا کرنا فرض ہے۔
          اگر مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہو تو ”دَین متوسط“ سے جو بھی تھوڑی تھوڑی رقم ملتی رہے، اس کو اپنے پاس موجود نصاب میں ملاتا رہے اور زکاة دے۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاہ، باب اقسام الدیون:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
دَین ِ ضعیف کاحکم:
          کسی شخص کو نہ نقد روپیہ قرض دیا، نہ سونا چاندی فروخت کی اور نہ ہی کوئی اور چیز فروخت کی، بلکہ کسی اور سبب سے یہ قرض دوسرے کے ذمے ہو گیا، مثلاً: شوہر کے ذمے اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرنا باقی ہو، یا بیوی کے ذمے شوہر کا بدلِ خلع ادا کرنا باقی ہو،یا کسی کے ذمے دیت ادا کرنا باقی ہو یا کسی مالک کے ذمے اپنے ملازم کی تنخواہ دینا باقی ہو ، تو ایسے قرضوں کو ”دَین ِ ضعیف“ کہتے ہیں۔
          ایسے قرضوں پر زکاة کی ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ ان اموال کی زکاة کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا، اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکاة فرض نہیں ہو گی۔وصول ہونے کے بعد اگر یہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس نصاب کے ساتھ اس مال کو ملا کے زکاة ادا کرے گا، ورنہ وصول ہو جانے کے بعد اس مال پر سال گذر جانے کے بعد زکاة ادا کرے گا۔(فتح القدیر، کتاب الزکاة: ۲/۱۲۳، رشیدیہ)
          اور جو ادھار خود لیا ہوا ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ فورا ً سارے کا سارا ادا کرنا لازم ہے، تو اس کو نصاب سے منہا کیا جائے گا، دوسری قسم یہ کہ یک مشت اس کل رقم کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ قسطوں میں ادا کرنا ہے تو صرف اس مہینے کی قسط نصاب سے منہا کی جائے گی۔اس کے علاوہ قرض اگر تجارت کے لیے لیا ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی عمارت ، بلڈنگ یا مشینری وغیرہ کے لیے لیاہے تو اسے نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا اور اگر محض تجارت کے لیے لیا ہے تو اسے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔(رد المحتار، کتاب الزکاة:۲/۲۶۳، سعید)
بینکوں سے زکاة کاٹنے کا حکم:
          حکومت کے آرڈینیس کے تحت حکومت بینکوں سے لوگوں کی رقمیں زکاة کی مد میں کاٹتی ہے۔شرعاً اس طریقے سے زکاة کی ادائیگی نہیں ہوتی، حکومتِ وقت کے اس طرح زکاة کاٹنے میں شرعاً دس خرابیاں ہیں، جنہیں فتاویٰ بینات جلد دوم ،ص:۶۳۵-۶۴۰ میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، بہ وقتِ ضرورت وہاں مراجعت کرلی جائے۔(فتاویٰ بینات،کتاب الزکاة، حکومت کا مسلمانوں سے زکاة وصول کرنا :۶۴۰-۶۳۵ ، مکتبہ بینات)
کمیٹی کی رقم پر زکاة کا حکم:
          کچھ افراد مل کے کمیٹی ڈالتے ہیں، کچھ ممبروں کی کمیٹی پہلے نکل آتی ہے،مثلاً: بیس افراد نے مل کر ایک ایک ہزار روپے جمع کر کے کمیٹی ڈالی، ان میں سے ایک کی کمیٹی پہلے نکل آئی، اب اس شخص کے پاس انیس ہزار روپے دوسروں کے ہیں اور ایک ہزار اپنا، تو یہ شخص اگر صاحب نصاب ہے تو یہ اپنے ایک ہزار روپے کو اس نصاب میں داخل کرے گا، انیس ہزار کو نہیں،اسی طرح ہر ممبر صرف اتنی رقم نصابِ زکاة میں جمع کرے گا، جتنی اس نے ابھی تک جمع کروائی تھی، البتہ آخری شخص پورے بیس ہزار کو اپنے نصاب میں شامل کرے گا، اور اگر یہ مذکورہ افراد صاحبِ نصاب نہ ہوں تو اس نکلنے والی کمیٹی کی رقم پر زکاة واجب نہیں ہو گی۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة: ۱/۱۷۳، رشیدیہ)
خلاصہ کلام:
          آخر میں بطورِ خلاصہ ان تمام اثاثوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر زکاة واجب ہوتی ہے اور جن پر واجب نہیں ہوتی:
وہ اثاثے جن پر زکاة واجب ہوتی ہے:
          (۱) سونے کی مارکیٹ ویلیو(خواہ سونا زیور کی صورت میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو)۔ (۲) چاندی کی مارکیٹ ویلیو (خواہ چاندی زیور کی صورت میں ہو یا کسی بھی شکل میں ہو)۔(۳) نقد رقم۔ (۴) کسی کے پاس رکھی گئی امانت (خواہ رقم ہو یا سونا، چاندی)۔(۵)بینک بیلنس۔(۶) غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو۔ (۷) کسی بھی مقصد (مثلاً: حج ، بچوں کی شادی یا مکان وغیرہ کی خریدنے) کے لیے رکھی ہوئی رقم۔(۸) حج کے لیے جمع کروائی ہوئی وہ رقم ،جو معلم کی فیس اور کرایہ جات وغیرہ کاٹ کر واپس کر دی جاتی ہے۔ (۹) بچت سرٹیفکیٹ مثلاً: NIT،NDFC،FEBC، کی اصل رقم (اگرچہ ان کا خریدنا ناجائز ہے)۔(۱۰) پرائز بانڈز کی اصل قیمت (اگرچہ ان کی خرید و فروخت اور ان پر ملنے والا انعام جائز نہیں ہے) ۔(۱۱) انشورنس پالیسی میں جمع کردہ اصل رقم (اگرچہ مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں ناجائز ہیں)۔ (۱۲) قرض دی ہوئی رقم(بشرطیکہ واپس ملنے کی امید ہو)۔ (۱۳) کسی بھی مقصد کے لیے دی ہوئی ایڈوانس رقم، جس کا اصل یا بدل اسے واپس ملے گا۔ (۱۴) سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر جمع کردہ رقم۔ (۱۵) بی سی (کمیٹی)میں جمع کروائی ہوئی رقم(بشرطیکہ ابھی تک کمیٹی نکلی نہ ہو)۔ (۱۶) تجارتی یا تجارت کی نیت سے خریدے گئے حصص۔ (۱۷) شرکت والے معاملے میں اپنے حصے کے قابلِ زکاة اثاثوں کی رقم مع نفع۔ (۱۸) بیچنے کے لیے خریدا ہوا سامان، جائیداد، حصص اور خام مال۔ (۱۹) تجارت کے لیے خریدی ہوئی پراپرٹی۔ (۲۰) ہر قسم کے تجارتی مال کی مارکیٹ ویلیو (یعنی: قیمتِ فروخت)۔ (۲۱) فروخت شدہ چیزوں کی قابلِ وصول رقم۔ (۲۲) تیار مال کا اسٹاک۔ (۲۳) خام مال۔
جو رقم مالِ زکاة سے منہا کی جائے گی:
          (۱) ادھار لی ہوئی رقم۔ (۲) خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قیمت۔ (۳) کمیٹی حاصل کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم۔ (۴) ملازمین کی تنخواہ ، جس کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہے۔ (۵) یوٹیلٹی بلز، کرایہ وغیرہ جن کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہو۔ (۶) گزشتہ سالوں کی زکاة اگر ابھی تک اداء نہ کی گئی ہو۔ (۷) قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں۔
          اب ماقبل میں ذکر کیے گئے ”وہ اثاثے جن پر زکاة واجب ہوتی ہے“ کی تمام صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کل قیمت جمع کر لیں ، پھر ”جو رقم مالِ زکاة سے منہا کی جائے گی“ میں ذکر کی گئی صورتوں کے ہونے کی صورت میں تمام چیزوں کی قیمت جمع کر کے پہلی رقم میں سے گھٹا لیں، اب جو رقم باقی بچے ، اس کا چالیسواں حصہ(یعنی : ڈھائی فی صد )بطورِ زکاة نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔
ناقابلِ زکاة اثاثے:
          (۱) رہائشی مکان، ایک ہو یا زیادہ۔ (۲) دوکان ؛ البتہ دوکان کا مال مالِ زکاة ہوتا ہے۔ (۳) فیکٹری کی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت سے نہ لی گئی ہو۔ (۴) دوکان، گھر، فیکٹری کا فرنیچر۔ (۵) زرعی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت نہ ہو۔(۶) کرایہ پر دیا ہوا مکان ، دوکان یا فلیٹ۔ (۷) مکان ، دوکان، اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہوا پلاٹ۔ (۸) کرایہ پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ گاڑی، مثلاً: ٹیکسی ، رکشہ یا بس وغیرہ۔