حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ الله
آپ
بہت خوش مزاج او رعمدہ اخلاق تھے، مزاج تنہائی پسند تھا، اکثر خاموش رہتے،
اس لیے ہر کسی کو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، تعظیم سے نہایت گھبراتے
تھے، بے تکلف ہر کسی کے ساتھ رہتے، اپنے کو مولوی کہلانے سے خوش نہیں ہوتے
تھے، کوئی نام لے کر پکارتا تو خوش ہوتے۔( بیس بڑے مسلمان:117)
ایک بار حضرت نانوتوی جارہے تھے، ایک جولا ہے نے بوجہ سادگی کے، اپنا ہم قوم سمجھ کر آپ سے پوچھا” صوفی جی! آج کل سوت کا کیا بھاؤ ہے؟“ حضرت نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر فرمایاکہ ”بھائی! آج بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے معلوم نہیں کہ کیا بھاؤ ہے۔“ (اصلاحی مضامین:52)
مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بھوپال سے مولانا کی طلبی آئی اور پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی ، میں نے کہا ” اے قاسم! تو کیوں نہیں جاتا“؟ تو فرمایا کہ ” وہ مجھے صاحب کمال سمجھ کر بلاتے ہیں او راسی بنا پر وہ پانچ سو روپے دیتے ہیں، مگر اپنے اندر میں کوئی کمال نہیں پاتا، پھر کس بنا پر جاؤں؟“ میں نے بہت اصرار کیا مگر نہیں مانے۔ ( اصلاحی مضامین:159)
ایک بار حضرت نانوتوی جارہے تھے، ایک جولا ہے نے بوجہ سادگی کے، اپنا ہم قوم سمجھ کر آپ سے پوچھا” صوفی جی! آج کل سوت کا کیا بھاؤ ہے؟“ حضرت نے ذرا بھی ناگواری کا اظہار کیے بغیر فرمایاکہ ”بھائی! آج بازار جانا نہیں ہوا، اس لیے معلوم نہیں کہ کیا بھاؤ ہے۔“ (اصلاحی مضامین:52)
مولوی امیر الدین صاحب نے فرمایا کہ ایک مرتبہ بھوپال سے مولانا کی طلبی آئی اور پانچ سو روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی ، میں نے کہا ” اے قاسم! تو کیوں نہیں جاتا“؟ تو فرمایا کہ ” وہ مجھے صاحب کمال سمجھ کر بلاتے ہیں او راسی بنا پر وہ پانچ سو روپے دیتے ہیں، مگر اپنے اندر میں کوئی کمال نہیں پاتا، پھر کس بنا پر جاؤں؟“ میں نے بہت اصرار کیا مگر نہیں مانے۔ ( اصلاحی مضامین:159)
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء