دعا کی اہمیت وآداب

زیر نظر ارشادات حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئ رحمة اللہ علیہ کے افادات سے منتخب کردہ ہیں، جن میں دعا کی طاقت ، اہمیت اور آداب کی طرف متوجہ کیا گیا ہے…… مرتب۔
 دعا کی اہمیت
۱…ارشاد فرمایا: دعا بڑی چیز ہے، آج ساری دنیا کا کام حقیقتِ دعا پر ہورہا ہے، گو صورةً نہ ہو۔ دعا کی حقیقت کیا ہے؟ جس کے اختیار میں چیز ہے اس سے عرض ومعروض کرنا ۔ کسی شخص کو ضرورت ہو ملازمت کی یا کسی چیز کی تو وہ درخواست دیتا ہے، اس کی خانہ پری کرتا ہے، پھر یہ کہ وہ جس کے اختیار میں ہے، وہاں سفارشات پہنچاتا ہے۔ خود جاکر عرض ومعروض کرتا ہے۔ دیکھئے! ریلوے کے کنڈیکٹر ہوتے ہیں، ان کے اختیار میں جگہ دینا ہے، کتنے لوگ ان کے پیچھے لگتے ہیں تو دعا کا حاصل یہ ہے کہ جس کے اختیار میں چیز ہے، اس سے عرض ومعروض کرے ۔ ہم نے دعا کرنااور مانگنا چھوڑ دیا۔ دعا وہ چیز ہے کہ بڑی سی بڑی مصیبت ٹل جاتی ہے، بڑی سی بڑی آسانی وسہولت پیدا ہوجاتی ہے۔

۲…فرمایا :دعا تو دل کی پکار ہے، کوئی ہاتھ پھیلائے زبان سے کہے اور دل کہیں اور ہو تو وہ دعا نہیں ہے، دعا کی صورت ہے۔ اس کی مثال میں عرض کرتا ہوں : ایک شخص نے حاکم کے پاس ایک درخواست لکھی اور وہ بہت عمدہ ٹائپ ہے، کاغذ بھی اچھا ہے، القاب و آداب ہیں، ٹکٹ لگاکر پیش کی، لیکن جب درخواست دینے کا وقت آیا تو حاکم کے سامنے درخواست پیش کی اور منہ پھیر لیا تو کیا ہوگا؟ اس کی درخواست منظور ہو جائے گی؟ یا کہا جائے گا کہ بڑا گستاخ اور بے ادب ہے کہ درخواست حاکم کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔ اسی طرح دعا میں بھی قلب غافل ہے اور دل کہیں اور ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسی دعا قبول نہیں کی جاتی۔ اس لئے دعا کرے تو دل کو متوجہ رکھے۔
۳…فرمایا: یہ بھی نہ کرے کہ کچھ دن مانگ کر بیٹھ جائے، کیونکہ اندیشہ ہے حق تعالیٰ شانہ کے غصہ ہوجانے کا، کیونکہ اس کی وجہ سے حق تعالیٰ پر الزام ہوگا کہ ہم تو دعا مانگ رہے ہیں اور نعوذ باللہ! آپ ہیں کہ قبول ہی نہیں کرتے، یہ شان معبودیت کے بالکل خلاف ہے۔
۴…فرمایا :دعا کی قبولیت میں جو تاخیر ہوجاتی ہے، اس تاخیر میں بھی مصلحتیں ہوتی ہیں، لہذا مانگتا رہے، لیکن جلدی نہ کرے:
کھولیں وہ یا نہ کھولیں در، اس پہ ہو کیوں تری نظر
تو، تو بس اپنا کام کر یعنی صدا لگائے جا
سوال ہوتا ہے کہ اچھا وہ مصلحتیں کیا ہیں؟ جواب یہ ہے کہ آپ کوئی ممبرپارلیمنٹ نہیں ہیں کہ آپ کو اس کی مصلحتیں بتائی جائیں۔ مصلحتوں کا جاننا ضروری نہیں ہے۔ جب وہ کریم ہیں، یعنی بغیرمانگے دینے والے ہیں تو جب وہ بغیر مانگے دے دیتے ہیں تو مانگنے پر کیوں نہ دیں گے؟ لہذا جلدی نہ کرے۔
۵…فرمایا: دعا کا اہتمام کرے، فرائض کے بعد دعا قبول ہوتی ہے۔ دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا کرے۔ کوئی مقصد ہو، کوئی حاجت ہو، یومیہ نفل پڑھ کر دعا مانگی جائے۔ ان شاء اللہ مشکلیں آسان ہوجائیں گی۔ کتنے لوگ اس عمل کی بدولت حج کر آئے، بعضوں کو بڑی جلدی حج ہوگیا۔ کسی کو تین سال میں، کسی کو دوسال میں، کسی کو ایک سال میں، دورکعت نفل یومیہ پڑھنا اور دعا مانگنا۔ باربار جب بچہ مانگتا ہے، تب آپ توجہ کرتے ہیں، سائل حاجت مند بار بار آکر عرض کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سے مانگتا رہے۔ دعا کرتا رہے۔
۶…فرمایا: مانگنے میں کمی نہ کرے،برابر دعا کرتا رہے، قبول کرنا یا نہ کرنا یہ تو اس کا کام ہے، یہ تمہارے ذمہ نہیں ہے۔ جو کام تمہارے ذمہ ہے، اسے تم کرو اور قبولیت کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دو۔ بندے کو تو عجز وانکساری چاہئے۔ اگر دعا بظاہر قبول نہ ہو تو اسی میں خیر سمجھے۔
۷…فرمایا :دعا قبول نہیں ہوئی، ہوسکتا ہے مانگنے میں کوتاہی اور کمی ہوگئی ہو، لہذا خوب عجز وانکساری کو ملحوظ رکھے، کیونکہ چھوٹے ہونے کے معنی ہی یہی ہیں کہ اپنی پسند کو مٹادے ،اپنی پسند کی کوئی حیثیت نہ سمجھے، بلکہ جو بڑے پسند کریں، وہی اس کی پسند ہو، مجاہدہ کرے۔ مجاہدہ تو اسی کو کہتے ہیں کہ نفس کو مٹادے۔ نفس جو چاہتا ہے وہ نہ کرے ،اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
۸…فرمایا :دعا قبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رحمت خاصہ کا متوجہ ہونا، کبھی تو وہی چیز مل جاتی ہے جس کا بندے نے سوال کیا ہے اور کبھی اس سے اچھی چیز مل جاتی ہے۔ یہ تو دنیا میں ہوتا ہے جیسے بچہ کسی چیز کے لئے ضد کرنے لگا تو اگر وہ اس کے لئے نقصان دینے والی نہ ہو تو والدین دے دیتے ہیں اور اگر نقصان دینے والی ہو، مثلاً بیمار ہے، بخار ہے اور برف مانگتا ہے تو کیا والدین برف دیتے ہیں؟ نہیں دیتے، بلکہ اس کو کوئی دوسری چیز جوکہ اس سے اچھی ہوتی ہے، اسے دے دیتے ہیں۔ اب کوئی کہے کہ وہ تو ملی نہیں جو ہمیں چاہئے، بھائی اس کی کیا حیثیت ہے؟ اس چیز کے مقابلہ میں جوکہ دی گئی ہے۔
۹… فرمایا :جیسا موقع ہو، اسی کے اعتبار سے دعا کرے، وقت تھوڑا ہے تو تھوڑی دعا اور موقع ہے تو طویل دعا کرے۔ الحمد شریف میں بہت چھوٹی دعا بتلائی گئی ہے ”اہدنا الصراط المستقیم“ ․․․․اے اللہ! ہم کو سیدھے راستہ پر چلایئے۔ (مجالس محی السنة)
۱۰… فرمایا: تدبیر کرنا ایسا ہے جیساکہ بجلی کا بٹن دبادیا، مگر پاور ہاؤس ہی سے روشنی آوے گی۔ اسی طرح تدبیر کرکے حق تعالیٰ ہی سے کامیابی کی دعا کی جاوے۔ یہی حقیقت ہے ”ایاک نعبد وایاک نستعین“ کی۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۱۵۴)
۱۱…فرمایا : جب مجھ سے کوئی متعدد مقاصد کے لئے دعاؤں کے لئے کہتا ہے تو میں کہتا ہوں :اچھا سب لوگ اپنے سب مقاصد کا دل میں خیال کرلیں پھر میں دعا کرتا ہوں کہ حق تعالیٰ آپ کے جمیع مقاصد پورے فرمائیں، کم وقت میں سب کے لئے اور جمیع مقاصد کے لئے دعا ہوگئی۔
(مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۳)
۱۲… فرمایا: اجتماعی دعاؤں میں جیساکہ ہر فرض نماز کے بعد مساجد میں ہوتی ہیں تو ہر شخص صرف اپنے لئے نہ مانگے، بلکہ ہر ایک کو شامل کرکے یوں دعا کرے کہ: یا اللہ! ہم میں سے ہرایک کو علم نافع عطا فرما، ہم سے ہرایک کو عمل مقبول ورزق واسع عطا فرما اور ہم میں سے ہرایک کی پریشانی دور فرما اور ہم میں سے ہرایک کی ہر جائز حاجت پوری فرما تو مسجد میں مثلاً سو نمازی ہیں تو ہر ایک کو سو آدمیوں کی دعائیں مل جائیں گی۔ اس کے فوائد اور بھی ہیں کہ ہر شخص دوسرے کو اپنے لئے دعا گو سمجھے گا، جس سے اس کی محبت پیدا ہوگی اور حسد کا علاج بھی ہو جائے گا۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۶)
۱۳… فرمایا: دعا قبول نہ ہونے کاسبب حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ اگر امر بالمعروف ونہی عن المنکریعنی بھلائی کا پھیلانا اور برائی سے روکنا امت میں جاری نہ رہا تو عذاب عام میں ابتلا ہوگا اور دعا بھی قبول نہ ہوگی۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۹۵) ۱۴… فرمایا: سائلین اور بھکاریوں سے سیکھو، کس طرح گڑ گڑاتے ہیں اور کیسی حالت بناکے مانگتے ہیں؟ ان کو مانگنا آگیا ہے ،اسی پر مطمئن ہیں ۔“ (تحفة الحرم ص:۲۰)

 آداب
۱۵…فرمایا :بلند آواز سے دعا مانگنا جائز ہے، بشرطیکہ کوئی مسبوق نہ ہو ،ورنہ مسبوق کی نماز خطرہ میں پڑجاتی ہے۔ بعض وقت سورہٴ فاتحہ پڑھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ چپکے چپکے دعا کرنا افضل ہے۔ (آئینہٴ ارشادات ص:۱۷)
۱۶…فرمایا : فقہأ تلاوت قرآن پاک کو جہر سے اس وقت منع کرتے ہیں جب وہاں کوئی نماز نفل پڑھ رہا ہو تو فرض نماز کے بعد جو لوگ مسبوق ہوتے ہیں اور فرض نماز کی بقیہ رکعات ادا کرتے ہوتے ہیں تو کس طرح اس وقت دعا میں جہر جائز ہوگا؟۔ آج کل دعائے جہری کا بڑا عموم ہورہا ہے، اس کی اصلاح ضروری ہے جس کی صورت یہ ہے کہ کثرت سے دعا سرّی کرے اور کبھی جہری کرے۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۱۲)
۱۷…فرمایا :دعا میں جہر تعلیماً اور تذکیراً جائز ہے، لیکن جب تعلیم ہوجاوے تو بدونِ ضرورت جہر مکروہ ہے، عالمگیری میں تصریح موجود ہے۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۸)
۱۸…فرمایا: دعا میں دونوں ہاتھوں کو سینے کے سامنے ہونا چاہئے اور دونوں ہتھیلیوں میں تھوڑا سا فصل ہونا چاہئے ۔ فتاویٰ عالمگیری میں اس کی تصریح موجود ہے۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۱۱)
اللہ تعالیٰ ہمیں دعا کی اہمیت سمجھنے ا ورآداب کے ساتھ مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمۃ اللہ:۔
اپنی بہترین رائے ضرور دیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء